پاکستان: کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ
10 مارچ 2020پاکستان میں اس وقت کورونا وائرس کے حوالے سے ہائی الرٹ کی صورتحال چل رہی ہے، پاکستانی زائرین کے ایران جانے پر مسلسل پابندی عائد کی جا چکی ہے، اور باب دوستی سے گذر کر افغانستان جانے والے راستے کو مزید سات دنوں کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ پنجاب اور سندھ میں بائیو میٹرک حاضری سسٹم کو عارضی طور پر روک دیا گیا ہے۔
سندھ میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافے کے بعد اسکولوں کو طویل عرصے کے لیے بند رکھنے اور حفاظتی اقدام کے طور پر پاکستان سپر لیگ کے میچز کا سلسلہ بند کرنے کا مطالبہ بھی زور پکڑتا جا رہا ہے۔
پاکستان میں کورونا سے بچاؤ کے لیے طبی عملے کی تربیت اور خصوصی وارڈز کے قیام کی کوششیں بھی جاری ہیں، حکومت کی طرف سے کورونا سے بچاؤ کے لیے آگاہی مہم بھی شروع کر دی گئی ہے۔
ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پنجاب کے پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر کے محکمے کے ترجمان قیصر عباس نے بتایا کہ اس وقت پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں کورونا وائرس کا کوئی بھی کنفرم مریض موجود نہیں ہے، ان کے بقول اس وقت پنجاب میں کورونا وائرس کے پانچ مشتبہ مریض موجود ہیں جن کو آئسولیشن وارڈز میں رکھ کر ان کے ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں۔ قیصر عباس کے مطابق اس وقت دو مشتبہ مریض ملتان کے نشتر ہسپتال میں، اور ایک ایک مشتبہ مریض حافظ آباد، سرگودھا اور گوجرانوالہ کے ہسپتالوں میں موجود ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اب تک پنجاب کے مختلف ہسپتالوں میں کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے شبہ میں 68 مشتبہ مریض لائے گئے تھے ان میں سے 10 مریضوں کو فوری طور پر کلیئر کر دیا گیا جبکہ 53 مریضوں کو لیبارٹری ٹیسٹس کے بعد کلیئر کیا گیا۔ باقی مریضوں کے لیبارٹری ٹیسٹ کے نتائج ابھی موصول ہونا باقی ہیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ پنجاب میں گزشتہ پندرہ دنوں میں چار ہزار سے زائد افراد کی اسکرینینگ کی جا چکی ہے، پنجاب کے درجنوں ہسپتالوں میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں ممکنہ اضافے کے پیش نظر خصوصی آئسولیشن وارڈز بنا دیے گئے ہیں اور فضائی مسافروں کا ڈیٹا حاصل کرکے متاثرہ ملکوں سے آنے والے افراد کی تلاش اور اسکریننگ کا کام بھی جاری ہے۔
ذرائع کے مطابق اب بھی متاثرہ علاقوں سے آنے والے کئی افراد ایسے ہیں جن کی ابھی تک اسکریننگ ممکن نہیں ہوسکی ہے۔ بعض مسافروں کا کہنا ہے کہ ہوائی اڈوں پر مسافروں کی چیکنگ کے انتظامات بھی تسلی بخش نہیں۔
طبی ماہرین کا خیال ہے کہ ذاتی حفظان صحت کا خیال، ہجوم والی جگہوں پر جانے سے گریز، کھانسی اور فلو کی علامتوں والے مریضوں سے فاصلہ اور محتاط طرز عمل کورونا وائرس سے بچاؤ میں مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے علامہ اقبال میڈیکل کالج کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر راشد ضیا نے بتایا کہ کورونا وائرس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے لیکن اس سلسلے میں احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ ان کے مطابق اگر کسی شخص کو بخار اور کھانسی کے ساتھ سانس لینے میں دشواری محسوس ہو تو اسے فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر راشد کے مطابق مسلسل ہاتھ دھونے، چھینک کی صورت میں منہ ڈھانپنے، اور متاثرہ افراد سے فاصلہ رکھنے سے بھی اس سے بچاؤ میں مدد مل سکتی ہے۔
یاد رہے، کورونا وائرس اس وقت دنیا کے ایک سو گیارہ ممالک تک پھیل چکا ہے اور اس بیماری کے نتیجے میں تقریباﹰ چار ہزار کے لگ بھگ افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں، جبکہ اس سے متاثرہ افراد کی تعداد ایک لاکھ تیرہ ہزار سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔