پاکستان کی امداد روکی جائے، امريکی تھنک ٹينک
2 جون 2011اس امريکی تحقيقی مطالعےميں کہا گيا ہے کہ پاکستان نے اقتصادی اصلاحات ميں التواء کيا ہے اور امريکی امداد کی وجہ سے ايک طرف توپاکستانی حکومت نے خود اپنی کوششوں ميں سستی دکھائی ہے اور دوسری طرف عوام بھی امريکہ سے بد ظن ہوئے ہيں۔
امريکہ کے ايک نجی تھنک ٹينک Center for Global Development کی ايک ٹاسک فورس نے يہ تحقيقی مطالعہ کيا ہے، جس کے مطابق پاکستان کو دی جانے والی امريکی امداد واضح مقاصد اور قيادت کے فقدان اور ’بہت تيزی سے بہت زيادہ کرنے‘ کے دباؤ کی وجہ سے دھندلی اور مبہم ہے۔
اس سينٹر کی صدر نينسی برڈ شيل نے کہا: ’’امريکہ پاکستان ميں صحيح راہ سے بہت دور چلا گيا ہے۔ اُس کی توجہ پاکستان ميں سکيورٹی پر بہت زيادہ ہے، جبکہ ملازمتوں، اقتصادی نمو اور جمہوريت پرکم رقم اورکم خطرے والی سرمايہ کاری کو نظر انداز کيا جارہا ہے۔
يہ تحقيقی مطالعہ ايک ايسے وقت سامنے آيا ہے جب پاکستان ميں امريکی خصوصی فوجی دستے کی کارروائی کے نتيجے ميں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد امريکی سينيٹ اور کانگريس کے اراکين 11 ستمبر کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد سے پاکستان کو کئی ارب ڈالر کی امداد کی فراہمی جاری رکھنے پر اعتراضات کر رہے ہيں۔
امريکہ نے سن 2009 ميں پاکستان کے ليے پانچ سال کی مدت ميں 7.5 ارب ڈالر کی امداد منظور کی، جس کے ذريعے خاص طور پر سينيٹر جان کيری، سينيٹر رچرڈ لوگراور رکن کانگريس ہاورڈ برمين کو يہ اميد تھی کہ پاکستانی فوج کو امداد کی فراہمی سے ہٹ کر معيشت اور شہری اداروں کی مدد پر توجہ دينے سے اس ملک ميں امريکہ مخالف جذبات کا زور کم کيا جا سکتا تھا۔ ليکن بن لادن کے خلاف کارروائی سے بہت پہلے شروع کيے جانے والے اس تحقيقی مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ اس امداد سے پاکستانی عوام ميں امريکہ کے خلاف جذبات اور بھی زيادہ ابھرے ہيں کيونکہ اس سے مستقبل کے بارے ميں غلط اميدوں ميں اضافہ ہوا ہے۔
امريکی تھنک ٹينک کی اس ريسرچ کے مطابق کيونکہ پاکستانی رہنما امريکہ سے مستقل رقوم وصول کر رہے ہيں، اس ليے وہ اپنے سياسی مخالفين سے مل جل کر اہم اصلاحات کرنے کے بجائے امريکی امداد کے حصول ہی پر زور دے رہے ہيں۔ اس تھنک ٹينک کی رپورٹ ميں کہا گيا ہے: ’’ان وجوہات کی بنا پر ہم يہ سفارش کرتے ہيں کہ کيری، لوگر، برمين امدادی پيکج کی زيادہ تر رقم ابھی پاکستان کو منتقل نہ کی جائے۔ خاص طور پر سرکاری انتظام ميں شديد خرابيوں کی وجہ سے کامياب نہ ہونے والے شعبوں کے ليے اس غير معمولی امداد کا بڑا حصہ روک ليا جائے اور اہم مسائل کے حل ہو جانے تک انتظار کيا جائے۔
اس تحقيقی مطالعے ميں يہ تسليم کيا گيا ہے کہ امداد کے ساتھ شرائط منسلک کرنا ايک ’نہايت حساس موضوع‘ ہے اور پاکستان کی طاقتور فوج نے سن 2009 ميں يہ اعتراض کيا تھا کہ امريکی امداد سے اُس کی خود مختاری کی خلاف ورزی ہو رہی تھی۔ ليکن اس ميں يہ بھی کہا گيا ہے کہ تعليم، بجلی اور مالی شعبے ميں اصلاحات کے بغير پاکستان کے ليے امريکی امداد غير مؤثر ہوگی۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان ميں بجلی، پانی اور اسکولوں کی قلت ہے جبکہ سن 2030 تک يہ ملک آبادی کے لحاظ سے دنيا کا چوتھا بڑا ملک بن جائے گا۔ اس ميں يہ بھی کہا گيا ہے: ’’اگر پاکستان، بھارت اور انڈونيشيا جيسے بڑے ايشيائی ملکوں کی صف ميں شامل ہونا چاہتا ہے تو اُسے اپنی راہ ميں نماياں تبديلی کرتے ہوئے اقتصادی نمو اور ضروری تبديليوں پر توجہ دينا ہوگی۔
برآمدی اشياء يعنی ٹيکسٹائل مصنوعات کی امريکہ ميں درآمد پر محصولات ميں کمی کر کے ان کے ليے امريکی منڈيوں کے دروازے کھولے، جس سے پاکستانی معيشت بہترہوگی اور وہاں ملازمت کے مواقع پيدا ہوں گے۔
رپورٹ: شہاب احمد صديقی
ادارت: مقبول ملک