پاکستان کی بند ہوتی پن چکیاں
26 جون 2021محمد لطیف نے یہ کبھی نہ سوچا تھا کہ وہ اپنا گھر چلانے کے لیے بسوں کو دھونے کا کام کریں گے۔ لیکن تین سال قبل انہیں اپنی پن چکی بند کرنا پڑی، ایک ایسا کاروبار جو ان کا خاندان ساٹھ سالوں سے چلا رہا تھا۔ کئی سالوں سے خشک سالی اور بے ربط بارشوں کے باعث پاکستان کے زیر انتطام کشمیر کے گاؤں چکوٹھی میں زراعت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ زراعی پیداوار میں کمی کے باعث اب پن چکیوں کے لیے اتنی گندم اور دیگر اناج نہیں جسے پیسنے کی ضرورت ہو۔ پچاس سالہ لطیف کا کہنا تھا، ''جب لوگوں نے اناج پسوانے کے لیے میرے پاس آنا بند کر دیا تو مجھے اپنی چکی بند کرنا پڑی۔ میرے پاس اور کوئی حل نہیں تھا۔''
زرعی ماہرین کے مطابق لطیف کا شمار ان سینکڑوں پن چکی مالکان میں ہوتا ہے جنہیں اپنا کاروبار چھوڑنا پڑا کیوں کہ بے ربط بارشوں کے باعث زرعی پیداوار بری طرح متاثر ہوئی۔ پاکستان کے قومی دیہی پروگرام کے بزنس ڈولپمنٹ افسر زاہد احمد کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں دو ہزار سے زائد پن چکیاں ہیں لیکن ان میں سے صرف ڈھائی سو ہی کام کر رہی ہیں ۔
جہلم ویلی کے زراعت ڈیپارٹمنٹ کے نائب ڈائریکٹر مرتضیٰ گیلانی کا کہنا ہے،'' گزشتہ سال فصل کی کٹائی کے وقت بہت زیادہ بارشوں کے باعث پاکستان کے زیر انتطام کشمیر میں پیداوار کو بہت نقصان ہوا۔ فصل متاثر ہونے سے کسان مایوس ہوتے ہیں اور اپنا کام چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔''
گندم کی کاشت کی ترجیح
موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرے سے دوچار ملکوں کی فہرست میں پاکستان پانچویں نمبر پر ہے۔ ان تبدیلیوں کا براہ رست اثر پاکستان کی سینکڑوں پن چکیوں پر ہوا ہے۔ کئی دہائیوں قبل ان چکیوں کو کشمیر کے ندی نالوں کے قریب گندم اور مکئی کو پیسنے کے لیے بنایا گیا تھا۔لیکن صرف بارش ہی نہیں، تبدیل ہوتی خوراک بھی پن چکیوں کے بند ہونے کی وجہ بنی ہے۔ اب بہت سے کشمیری مکئی کی جگہ گندم کو ترجیح دیتے ہیں۔جیسے کسانوں نے مکئی کی جگہ گندم کی کاشت بڑھائی اسی طرح خشک سالی اور بے ربط بارشوں کے باعث ان کی گندم کی پیداوار بھی متاثر ہوئی۔
پانی کی کمی
زرعی ماہرین کے مطابق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اسی فیصد کھیت پانی کے لیے بارشوں پر اکتفا کرتے ہیں، زراعت کے ماہر ظہیر گردیزی کا کہنا ہے کہ ستر سال پہلے پاکستان میں فی کس بارہ ہزار کیوبک میٹرز پانی دستیاب تھا آج فی کس صرف نو سو کیوبک میٹرز پانی دستیاب ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق دنیا کا کوئی بھی ملک جہاں پانی فی کس سترہ سو کیوبک میٹرز سے کم ہے وہ ملک پانی کی کمی کا شکار ہے اور اگر فی کس پانی کی دستیابی ایک ہزار کیوبک میٹرز ہے تو وہ ملک شدید پانی کی قلت کا سامنا کر رہا ہے۔
پن چکیوں کا متبادل استعمال
یونیورسٹی آف آزاد جموں اینڈ کشمیر کے محمد نعیم احمد کا کہنا ہے کہ پن چکیاں ماحول دوست ہیں۔ اس لیے حکومت کو ان کے متبادل استعمال کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان پن چکیوں کو بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ لیکن محمد لطیف کہتے ہیں کہ پانی کی دستیابی بڑھ بھی جاتی ہے یا پن چکیوں کا کوئی اور استعمال کیا بھی جاتا ہے تب بھی وہ حکومت کی امداد کے بغیر یہ کام دوبارہ شروع نہیں کر سکتے۔ محمد لطیف کے مطابق لکڑی، پتھروں اور مٹی سے بنائی گئی ان پن چکیوں کو زیر استعمال رکھنے کے لیے دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔
ب ج، ع ق (تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن)