پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے ڈیم کی تعمیر کا آغاز
15 جولائی 2020انہوں نے یہ بات گلگت بلتستان کے علاقے چلاس میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ قبل ازیں وزیراعظم نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور وفاقی وزیر برائے آبی ذرائع فیصل واوڈا کے ہمراہ دیامر بھاشا ڈیم کی جگہ کا دورہ بھی کیا، جہاں انہوں نے تعمیراتی کام افتتاح کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ڈیم کے بننے سے گلگت بلتستان کے لوگوں کا بھی فائدہ ہو گا۔
خطاب کے دوران وزیر اعظم نے کہا کہ وہ ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا ڈیم بنانے کی طرف جا رہے ہیں۔ انہوں نے بڑے ڈیموں کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ یہ پاکستان کا تیسرا بڑا ڈیم ہو گا، ''چین نے مجموعی طور پر آٹھ ہزار ڈیم بنائے ہیں، جن میں پانچ ہزار بڑے ڈیم ہیں۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہم نے ماضی میں کتنی بڑی غلطی کی۔‘‘
انہوں نے ڈیم کی تاخیر کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا، ''ڈیم کے لیے اس سے بہتر کوئی اور جگہ نہیں ہو سکتی۔ یہ ڈیم کے لیے قدرتی جگہ ہے۔ اس ڈیم کو تعمیر کرنے کا فیصلہ پچاس برس پہلے ہوا تھا اور اس پروجیکٹ پر کام آج شروع ہوا ہے۔ ہمارے ترقی نہ کرنے کی وجوہات میں سے یہ ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔‘‘
وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ حکومت دریاؤں پر اب مزید ڈیم بنائے گی، جن سے ملک کے زرمبادلہ پر دباؤ کم ہو گا، '' تیل یا کوئلے کی جگہ پانی سے بجلی پیدا کرنے سے ماحولیاتی تبدیلیوں اور عالمی حدت سے پیدا ہونے والے اثرات کو بھی کم کیا جا سکے گا۔ اس کے فائدے دوہرے ہیں۔ ہمیں تیل درآمد نہیں کرنا پڑے گا اور یہ ہمارے ماحول پر منفی طور پر اثر انداز بھی نہیں ہو سکے گا۔‘‘
اس موقع پر عمران خان نے گلگت بلتستان کے لیے سیاحت کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ وہ وزیر اعلی سے کہیں گے کہ سیاحت کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے ایس او پیز بنائیں، ''ہمیں دنیا سے سیکھنا چاہیے، جو بتدریج سیاحت کو کھول رہی ہے۔ سیاحت کا شعبہ اب ویسا نہیں رہے گا، جیسے کہ وبا سے پہلے تھا لیکن ہم اسے بتدریج کھول سکتے ہیں اور ایس او پیز لا سکتے ہیں۔‘‘
یہ بھی پڑھیے:
کیا پاکستان شدید آبی قلت کا شکار ہونے جارہا ہے؟
علاوہ ازیں سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ نے ایک ٹویٹ میں دعوی کیا کہ دیامر بھاشا ڈیم سے چھ اعشاریہ چار ایم اے ایف پانی کا ذخیرہ کیا جائےگا، جس سے بارہ لاکھ ایکٹر زمین کو قابل کاشت بنایا جا سکے گا اور چار ہزار پانچ سو میگا واٹ بجلی بھی پیدا کی جا سکے گی۔ ان کا مزید دعوی تھا کہ اس سے سولہ ہزار افراد کے لئے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔
واضح رہے کہ وزیر اعظم کا یہ دورہ ایک ایسے موقع پر ہوا ہے، جب گلگت بلتستان میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ ان کی تقریر کے بعد کئی حلقوں میں ایک مرتبہ پھر دیامر بھاشا ڈیم کی افادیت اور نقصانات کے حوالے سے بحث بھی چھٹر گئی ہے۔ جہاں وزیر اعظم اور حکومتی افراد نے صرف اس کی افادیت بیان کی وہاں ناقدین اس کے نقصانات کی طرف بھی توجہ مبذول کرا رہے ہیں۔
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے آبی امور کے ماہر عامر حسین کا کہنا ہے کہ اس ڈیم کے حوالے سے ماحولیاتی پہلووں کو بھی دیکھنا پڑے گا، ''گلگت کی زراعت کا انحصار بارش کے ایک مخصوص سسٹم پر ہے۔ ڈیم بننے سے علاقے میں بارش زیادہ ہو گی کیونکہ آبی بخارات زیادہ بنیں گے، جس سے زراعت بھی متاثر ہو گی اور لینڈ سلائیڈنگ بھی زیادہ ہو گی۔ اس کے علاوہ ڈیم کی سائٹ کے حوالے سے یہ خدشات ہیں کو وہ زلزلے کے حوالے سے حساس ہے۔ لہذا حکومت کو ان تمام معاملات کو بھی دیکھنا چاہیے۔‘‘