1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کی سویلین حکومت کو دوہرے محاذ کا سامنا

22 اپریل 2021

پاکستان میں ایک مرتبہ پھر حکومت کو مذہبی حلقوں کے شدید دباؤ سامنا ہے۔ ایسی صورتحال میں حکومت کے لیے ’ایف اے ٹی ایف‘ کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے فرانس کی حمایت حاصل کرنا مزید مشکل ہو جائے گا۔

https://p.dw.com/p/3sMRZ
Deutschland, Berlin | Außenminister: Qureshi trifft Maas
تصویر: Kay Nietfeld/AFP/Getty Images

پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی گزشتہ ہفتے جب برلن  میں جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس سے دوطرفہ ملاقات کے بعد ملک میں تجارت اور سرمایہ کاری کے بہترین مواقع کی بات کر رہے تھے تو اس وقت پاکستان کے مختلف شہروں میں تحریک لبیک پاکستان کے ڈنڈا بردار کارکن اپنے سربراہ کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کے نام پر پتھراؤ، گھیراؤ اور املاک کو نقصان پہنچا رہے تھے۔
اس کے ساتھ ساتھ مظاہرین چند ماہ پہلے فرانس میں شائع ہونے والے پیغمبر اسلام کے متنازعہ خاکوں کے ردعمل کے طور پر پاکستان میں تعینات فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کا مطالبہ بھی کر رہے تھے۔
برلن میں اپنے جرمن ہم منصب کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران شاہ محمود قریشی بارہا اس جانب اشارہ کر رہے تھے کہ یورپ کی سب سے بڑی معیشت جرمنی، پاکستانی معیشت کی بہتری میں تعاون کرے اور اپنی مختلف دیوہیکل جرمن کمپنیوں کو پاکستان میں مزید سرمایہ کاری کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرے۔
دوسری جانب جرمن وزیر خارجہ کی طرف سے تجارتی تعلقات کے ساتھ ساتھ خطے میں بالخصوص افغانستان میں قیام امن پر بھرپور زور دیا جا رہا تھا۔ اس دوران شاہ محمود قریشی نے دیگر امور پر بات کرتے ہوئے ایک اور اہم بیان بھی دیا تھا۔ ان کے بقول، ’’جرمنی کا شکریہ، کہ اس نے ’ایف اے ٹی ایف‘  یعنی دہشت گردی کی مالی معاونت کرنے والے ممالک پر نظر رکھنے والا ادارے کے فورم کو سیاسی طور پر استعمال ہونے سے روکنے میں مدد کی۔‘‘
پہلے تو لگا اس بات کے ذریعے اشارہ ہمسایہ ملک بھارت کی جانب کیا جا رہا ہے کیونکہ اسلام آباد حکومت یہ بارہا کہہ چکی ہے کہ نئی دہلی حکومت ایف اے ٹی ایف کو ہر محاذ پر پاکستان کے خلاف استعمال کر رہی ہے۔ لیکن یہاں غور طلب بات یہ بھی تھی کہ ماضی قریب میں ایک اور ملک نے بھی ایف اے ٹی ایف کے اجلاس سے قبل پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے پر کھل کر مخالفت کی تھی اور وہ ملک تھا فرانس۔
پاکستان میں تحریک لبیک پاکستان کے کارکنوں کی جانب سے دیے گئے دھرنوں، پولیس اور سکیورٹی فورسز کے مبینہ تشدد اور متنازعہ خاکوں کے جواب میں فرانسیسی اشیاء کی فروخت پر پابندی کے ساتھ ساتھ فرانسیسی سفیر کی بے دخلی کا مطالبہ، یہ تمام معاملات اشارہ دیتے ہیں کہ فرانس مستقبل میں بھی ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے پاکستان کی شدید مخالفت کر سکتا ہے۔
وزیر خارجہ کا مذکورہ جملہ اس لیے بھی اہمیت کا حامل تھا کیونکہ یورپی بلاک میں جرمنی اور فرانس کے دیرینہ تعلقات ہیں اور پاکستان کی شاید ماضی قریب میں یہ کوشش بھی رہی ہے کہ برلن حکومت اسلام آباد اور پیرس کے درمیان ’سفارتی تناؤ‘ کو کم کرنے میں مدد کرے۔
شاہ محمود قریشی کے پاس جرمن وزیر خارجہ کے ساتھ اس معاملے پر بات چیت کرنے کے لیے یہ ایک سنہری موقع تھا کیونکہ رواں برس گیارہ ستمبر سے پہلے پہلے افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج کا انخلا ہونے جا رہا ہے۔ امریکی فوجی دستوں کے بعد افغانستان میں سب سے بڑی تعداد جرمن فوج کی ہے۔ لہٰذا اس دوران جرمنی کو بھی پاکستان کے تعاون کی ضرورت تو رہے گی۔
اس کے علاوہ ایف اے ٹی ایف کے آئندہ اجلاس میں بھی چند ہی ماہ باقی ہیں اور دوطرفہ ملاقات میں ان تمام باتوں پر تفصیلی گفتگو کی جا سکتی تھی۔
وزیر خارجہ کی جانب سے جرمنی کے دو روزہ سرکاری دورے پر اعلی سطحی ملاقاتوں میں تجارت و سرمایہ کاری، خطے میں امن وامان کی صورتحال جیسے اہم امور پر تبادلہ خیال ضرور کیا گیا۔ لیکن یہ تمام تر سفارت کاری کہیں نہ کہیں ایک مرتبہ پھر داخلی سطح پر شدت پسند عناصر کی پرتشدد کارروائیوں کے بوجھ اور شور تلے دب گئیں۔ پاکستان ایک مرتبہ پھر دنیا بھر کے میڈیا پر پرتشدد مظاہروں کی آگ کے شعلوں سے بھری سرخیوں کی زینت بن گیا۔
پاکستان کی سویلین حکومت کو اس وقت اندرونی اور بیرونی سطح پر دوہرے محاذ کا سامنا ہے۔ اگر فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کیا گیا تو یقیناﹰ یورپی یونین سے سفارتی تعلقات خراب ہوں گے اور ایسا نہ کیا گیا تو اس بات کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ مستقبل میں 'مذہبی حلقہ‘ ایک مرتبہ پھر سڑکوں پر احتجاج کے لیے نہیں نکلے گا۔ ان دونوں صورتوں میں نقصان آخر پاکستانی عوام کا ہی ہو گا۔

Irfan Aftab DW Journalist in Berlin
عرفان آفتابتصویر: DW