پاکستان کے اقتصادی مہاجرین کو یورپ میں پناہ نہیں ملے گی
14 دسمبر 2016جب لقمان نے یورپ آنے کے لیے اپنے ملک پاکستان کو خیر باد کہا تو اُسے معلوم نہیں تھا کہ بد قسمتی اُس کا اور اُس کے خاندان کا انتظار کر رہی تھی۔ 26 سالہ لقمان تین دوستوں کے ہمراہ پاکستان کے مغربی شہر لاہور سے 84 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع اپنے گاؤں نوشہرہ ورکاں سے روانہ ہوا۔
سفر کے دوران لقمان کا اپنے رشتہ داروں کے ساتھ رابطہ ہوتا رہا۔ لیکن یونان کی سمت جاتے ہوئے اپنے سفر کے تقریباﹰ اختتام پر جب وہ بحیرہٴ روم عبور کرنے ہی والا تھا، یہ رابطہ منقطع ہو گیا۔ اِس کے تین ماہ بعد گاؤں نوشہرہ ورکاں میں دو میتیں لائی گئیں جن میں سے ایک لقمان کی تھی۔
لقمان کی بے وقت موت نے اُس کے گھر والوں کو کنبےکے واحد کمانے والے سے محروم کر دیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ لقمان نے یورپ کے سفری اخراجات برداشت کرنے کے لیے جو پانچ لاکھ کی رقم بینک سے قرض لے رکھی تھی، وہ بھی اب اُس کے خاندان والوں کو ادا کرنی ہے۔ اگرچہ اِس حوالے سے کوئی مستند اعداد و شمار تو دستیاب نہیں لیکن ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان سے یورپ کا سفر اختیار کرنے والوں میں سے زیادہ تر کا تعلق ملک کے صوبہٴ پنجاب کے وسطی حصے سے ہوتا ہے۔
مشرقِ وسطیٰ میں جنگ اور شورش کے باعث گزشتہ برس بنیادی طور پر شام، عراق اور افغانستان سے ایک ملین سے زائد افراد بحیرہٴ ایجیئن عبور کر کے ترکی کے راستے یونان کا سفر کرنے پر مجبور ہوئے۔
پاکستان اگرچہ جنگ زدہ ملک نہیں تاہم بہت سے پاکستانی اب بھی تعاقب کا شکار ہونے کا عذر پیش کرتے ہوئے یورپ میں پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ انسانی اسمگلنگ کے نیٹ ورک کی مدد سے ہزاروں افراد اپنی جان جوکھوں میں ڈالتے ہوئے براستہ ایران پیدل چل کر ترکی اور پھر یونان یا لیبیا کی سمت سفر اختیار کرتے ہیں، جہاں سے اُن کی حتمی منزل یورپی ملک اٹلی ہوتا ہے۔
اس سال مجموعی طور پر پندرہ ہزار اٹھاون پاکستانی شہریوں نے جرمنی میں پناہ کی درخواستیں دائر کیں لیکن زیادہ تر درخواستوں کو جرمن حکام نے مسترد کر دیا ہے۔
اقتصادی مہاجرین
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں قائم جرمن سفارت خانے میں پرواز اور نقل مکانی کے امور کے نگران فرسٹ سیکرٹری کالے ہولز فُس نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’یورپ پہنچنے والے زیادہ تر پاکستانی اقتصادی تارکینِ وطن ہیں۔ایسے مہاجرین کو سمجھنا ہو گا کہ اُنہیں یورپ میں قیام کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔‘‘
ہولز فُس نے مزید کہا کہ صرف وہ افراد، جنہیں اپنے آبائی ممالک میں ظلم و ستم کا سامنا ہے یا جان کا خطرہ ہے، پناہ کے لیے درخواست دائر کر سکتے ہیں۔ تاہم ہولز فُس نے تسلیم کیا کہ پاکستان میں مذہبی اقلیتوں مثلاﹰ عیسائی اور ہندو افراد کو ظلم و ستم کا سامنا ہے۔ جرمن اہلکار نے پر زور انداز میں کہا کہ پاکستانی مہاجرین کی اکثریت کو جلد یا بدیر جرمنی سے واپس جانا ہو گا۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے بھی اس ماہ کے آغاز میں حکمران جماعت سی ڈی یو کی برلن میں ہونے والی سالانہ کانگریس میں واضح کیا تھا کہ اقتصادی مہاجرین کو جرمنی میں رہنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ یاد رہے کہ برلن حکومت نے ایسے پناہ گزینوں کی ملک بدری کا آغاز کر دیا ہے، جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
پاکستان میں تعینات خاتون جرمن سفیر اِینا لیپل کا کہنا ہے کہ پاکستان سے غیر قانونی نقل مکانی کا دیر پا حل اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے ایک جامع حکمتِ عملی بنانے میں مضمر ہے۔ جرمن سفیر نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’ہمیں بین الاقوامی تنازعات کی روک تھام اور اُن کے حل کے لیے سخت محنت کرنا ہو گی کیونکہ بہت سی پناہ گزین تحریکیں انہی کی بدولت جنم لیتی ہیں۔‘‘
لیپل کا کہنا تھا کہ اگر مہاجرت کا قصد کرنے والے افراد کی حوصلہ شکنی کرنی ہے تو بین الاقوامی برادری کو بحران زدہ ممالک میں ترقیاتی تعاون پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔ لیپل نے پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کے سدّباب کے لیے کسی قسم کا قانون نہ ہونے کی جانب بھی توجہ مبذول کرائی۔
پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کے موضوع کے ماہر اور وکیل ضیا اعوان نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ اِس صورتِ حال کے لیے یورپ برابر کا ذمےدار ہے۔ اعوان کا کہنا تھا، ’’مہاجرین کے موجودہ بحران کے لیے کچھ ذمہ داری یورپ کو لینی ہو گی۔ کئی عشروں سے پاکستان کے کچھ حصوں سے لوگ یورپی ممالک کی طرف غیر قانونی طور پر نقل مکانی کرتے رہے ہیں۔ اُن سے اچانک یہ راستہ ترک کرنے کی توقع کیسے رکھی جا سکتی ہے۔‘‘
اعوان نے مزید کہا کہ ماضی میں بے شمار افراد نے پاکستان میں جعلی دستاویزات بنوائیں اور اُن کی بنیاد پر یورپ میں پناہ اور رہائشی اجازت نامے حاصل کیے۔