’پاکستان کے جوہری ہتھیاروں میں اضافہ’
4 فروری 2011واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان نے نئے ہتھیاروں کے لیے یورینیم اور پلوٹونیم کی پیداوار میں نمایاں طور پر اضافہ کر دیا ہے اور اس طرح وہ اپنے روایتی حریف بھارت سے ایٹمی ہتھیاروں کے معاملے میں واضح طور پر آگے نکل چکا ہے۔
غیرسرکاری تجزیہ کاروں کے مطابق ایک جانب پاکستان نے زیادہ تعداد میں جوہری ہتھیار تیار کر لیے ہیں تو دوسری جانب بھارت کے پاس ایسے ہتھیاروں کی تیاری کے لیے جوہری مواد کا بڑا ذخیرہ موجود ہے۔
اخبار کے مطابق جنوبی ایشیا میں جوہری اسلحے کی دوڑ سے اوباما انتظامیہ شدید مشکل سے دوچار ہے کیونکہ امریکی حکومت کے بھارت کے ساتھ انتہائی اہم دفاعی، سیاسی اور اقتصادی تعلقات ہیں جبکہ پاکستان خطے میں جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا انتہائی اہم اتحادی ہے۔
امریکی انتظامیہ ان خدشات کا اظہار کرتی آئی ہے کہ سیاسی طور پر کمزور پاکستان میں ممکنہ طور پر جوہری مواد دہشت گردوں کے ہاتھ لگ سکتا ہے۔ تاہم پاکستانی قیادت یہ سوچتی ہے کہ اس کے جوہری ہتھیاروں کو کنٹرول یامحدود کرنے کا مجوزہ امریکی منصوبہ بھارت کے حق میں ہو گا۔
ان خدشات ک اظہار جنیوا میں اقوام متحدہ کے ’ تخفیف اسلحہ مذاکرات ‘ کے افتتاحی اجلاس میں بھی کیا گیا، جہاں پاکستانی سفیر ضمیر اکرم نے امریکہ سمیت دوسری عالمی طاقتوں پر ’’دہرے معیار اور امتیازی سلوک‘‘ کا الزام لگایا۔ پاکستانی سفیر کے مطابق امریکہ اور دوسری طاقتیں یورینیم اور پلوٹونیم کی پیداوار پر پابندی کے معاہدے کے سلسلے میں دہرے معیارات اپنائے ہوئے ہیں۔
واشنگٹن میں پاکستان کے سفارت خانے میں تعینات ملٹری اتاشی بریگیڈیئر نذیر بٹ نے کہا ہے کہ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کی تعداد اور ملک میں جوہری تنصیبات کی تفصیلات راز ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ پاکستان اپنے ہمسایہ ممالک میں حالات کی وجہ سے اپنی سلامتی کی ضروریات سے غافل نہیں رہ سکتا۔ انہوں نے کہا، ’ایک جوہری طاقت کی حیثیت سے ہمیں اپنی دفاعی صلاحیت پر بھرپور اعتماد ہے۔‘
پاکستان، بھارت اور اسرائیل وہ تین ممالک ہیں جنہوں نے این پی ٹی یعنی جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے عالمی معاہدے پر کبھی دستخط نہیں کیے جبکہ شمالی کوریا اس معاہدے سے 2003 میں دستبردار ہو گیا تھا۔ اسرائیل اپنی جوہری صلاحیت کی تصدیق یا تردید بھی نہیں کرتا۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: ندیم گِل