پاکستان کے دو بچوں نے اٹھائی بڑی ذمہ داری
کئی بار بڑے سوچتے رہ جاتے ہیں اور بچے بازی لے جاتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی کیا کراچی میں رہنے والی شیریں اور ان کے بھائی حسن نے۔ بے گھر بچوں کو تعلیم دینے کی جو ذمہ داری حکومت کی ہے، وہ ان بچوں نے اپنے کندھوں پر اٹھا رکھی ہے۔
ذہین بچے
ساتویں جماعت میں پڑھنے والی شیریں اور دسویں کلاس میں پڑھنے والے ان کے بھائی حسن نے کراچی کی سڑکوں پر رہنے والے بچوں کے لیے اسکول کھولا ہے۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے لیکن ہزاروں بچوں کے لیے سڑکیں ہی ان کا گھر ہیں۔
جدوجہد
دو وقت کی روٹی حاصل کرنے کی جدوجہد میں لگے ان بچوں کے لیے اسکول جانا کوئی ترجیح کیسے ہو سکتی ہے؟ لیکن شیریں اور حسن اسکول کو ہی ان بچوں تک لے گئے ہیں۔ کراچی کے علاقے كلفٹن میں بے آسرا بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے اور یہ بچے بھی کچھ کرنے کے لیے پرعزم ہو چکے ہیں۔
آغاز کیسے ہوا
اسٹریٹ اسکول کھولنے کا خیال کیسے آیا؟ شیریں بتاتی ہیں، ’’ایک بار میں اس سڑک سے جا رہی تھی کہ مجھے ایک بچی ملی۔ اس نے بھیک لینے سے انکار کر دیا۔ وہ بولی مجھے پڑھنا ہے، کیا آپ یہاں آ کر مجھے پڑھا سکتی ہیں؟‘‘ یہی وہ لمحہ تھا جب شیریں نے ان بچوں کو تعلیم دینے کا سوچا۔
سب کا ساتھ
شیریں بتاتی ہیں کہ انہوں نے ایک بچے کو پڑھانا شروع کیا لیکن کچھ ہی دن میں اور بھی بہت سارے بچے پڑھنے کے لیے وہاں آنے لگے۔ اس کوشش میں شیریں کے بھائی حسن نے ان کا مکمل ساتھ دیا۔ اپنے بچوں کا جذبہ دیکھ کر شیریں اور حسن کے والدین نے اس منصوبے کے لیے مالی وسائل مہیا کرنا شروع کر دیے۔
راشن بھی ملتا ہے
ایسے بہت سے بچوں پر ان کے خاندان بھی مالی انحصار کرتے ہیں۔ ان کے والدین چاہتے ہیں کہ جب وہ گھر واپس جائیں تو کھانا یا پیسے لے کر آئیں۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے اسٹریٹ اسکول میں آنے والے بچوں کو 50 روپے اور ان کے خاندانوں کو راشن بھی دیا جاتا ہے تاکہ وہ بچوں کو پڑھنے سے نہ روکیں۔
نشے سے پڑھائی کی طرف
اسٹریٹ اسکول میں آنے والے کچھ بچے نشے کے عادی بھی ہوتے ہیں۔ ان کے لیے خاص تھراپی کا انتظام کیا جاتا ہے تاکہ وہ نشے کی لت چھوڑ کر تعلیم پر توجہ دیں سکیں۔ اگرچہ یہ کام آسان نہیں، لیکن جب ارادہ پختہ ہو تو کچھ بھی مشکل نہیں ہوتا۔
لاکھوں بے گھر
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سڑکوں پر 12 سے 13 لاکھ بچے رہتے ہیں۔ یہ تعداد بڑھتی ہی جا رہی ہے، جس کا سبب غربت، بے روزگاری اور دہشت گردی اور قدرتی آفات کی وجہ سے ہونے والی نقل مکانی ہے۔
بڑھتے ہوئے قدم
شیریں بتاتی ہیں کہ جب انہوں نے ان بچوں کو پڑھانا شروع کیا تھا تو انہیں حروف کی معلومات تو دور بلکہ صحیح طرح پینسل پکڑنا بھی نہیں آتا تھا۔ لیکن اگر آج دیکھا جائے تو یہ پڑھ لکھ سکتے ہیں۔ شیریں چاہتی ہیں کہ وہ ہر بے گھر بچے کو پڑھائیں۔
چل نکلا کارواں
شیریں اور حسن کے اسکول نے ایک سال کے اندر اندر بہت کچھ حاصل کر لیا ہے۔ ان کے اسکول میں اب 75 بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ بہت سے نوجوان بھی ان کی اس کوشش میں شامل ہو چکے ہیں۔ اب کچھ غیر سرکاری تنظیمیں بھی ان کی مدد کے لیے آگے آئی ہیں۔ یہ ادارے اس اسٹریٹ اسکول کو سامان مہیا کرتے ہیں۔
گلوبل یوتھ آف دی ایئر
بہن بھائی کی ایک اچھی کوشش کی شہرت ملکی سرحدوں سے نکل کر دنیا بھر میں پھیل رہی ہے۔ انہیں دسمبر 2016 میں تائیوان میں گلوبل یوتھ آف دی ایئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ شیریں اور حسن کے خاندان کو اپنے ان بچوں پر فخر ہے۔
شمع کی صورت
کراچی کے ہر کونے میں ایسا ایک اسکول کھولنے کی شیریں کی خواہش شاید کبھی پوری نہ ہو سکے لیکن ایک سال کے اندر اندر انہوں نے ایک راستہ تو دکھا ہی دیا ہے کہ اگر حکومتیں چاہیں تو اس طرح لاکھوں بے گھر بچوں کی قسمت بدلی جا سکتی ہے۔