پاکستان کے ساحلی علاقوں میں فائٹو پلانکٹن کی نشونما متاثر
6 نومبر 2022انسان کی غیر ذمہ دارانہ سرگرمیوں نے زمین کے قدرتی ماحول کو جتنا نقصان پہنچایا ہے اس کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ سمندر میں پائے جانے والے خوردبینی نباتات جنہیں فائٹوپلانکٹن کہا جاتا ہے، وہ بھی ان سرگرمیوں کے اثر سے محفوظ نہیں رہے۔ پاکستان کے ساحلی علاقوں میں صنعتی سرگرمیوں سے آبی آلودگی بڑھنے اور مینگروز کے جنگلات کی بے دریغ کٹائی سے ان خوردبینی بناتات کی کئی انواع کے مسکن متاثر ہو رہے ہیں، جس کے باعث سمندر ی پانی میں تیزابیت بڑھ رہی ہے۔
فائٹو پلانکٹن کیا ہیں؟
پلانکٹن قدیم مصری زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ہیں، "ساتھ بہہ جانے والا"۔ یہ لفظ سمندر میں تیرنے والی ان تمام نباتاتی انواع کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جو سمندری کرنٹ یا موجوں کے زیر ِاثر پانی میں تیرتی رہتی ہیں۔ ان میں زیادہ تر خوردبینی اور یک خلوی انواع ہیں۔ فائٹو پلانکٹن کا تعلق اسی پلانکٹن کمیونٹی سے ہے، جس میں سائنو بیکٹیریا، یک خلوی گرین الجی، اور بلیو گرین الجی شامل ہیں۔
یہ نباتات سمندر کی اوپری تہہ میں پائے جاتے ہیں، جہاں سورج کی روشنی وافر مقدار میں دستیاب ہو۔ فائٹو پلانکٹن کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ فوٹو سینتھیسز یا خوراک بنانے کے عمل کے دوران سمندری پانی سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کر کے آکسیجن گیس بائی پراڈکٹ کے طور پر خارج کرتے ہیں ۔
فائٹو پلانکٹن اتنی اہمیت کے حامل کیوں ہیں؟
فائٹو پلانکٹن زمین پر زندگی کے تنوع اور استحکام کے لیے مرکزی حیثیت کے حامل ہیں، جو ہر طرح کے سمندری ایکوسسٹم میں پائے جاتے ہیں۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ میرین سائنسز کی محقق سیما شفیق نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ انسانوں کو سانس لینے کے لیے درکار آکسیجن رین فاریسٹ فراہم کرتے ہیں،''حالانکہ یہ جنگلات زمین کے ماحول میں پائے جانے والی کل آکسیجن کا محض 23 فیصد حصہ پیدا کرتے ہیں۔ بقیہ 70 فیصد آکسیجن فائٹو پلانکٹن فوٹو سینتھیسز کے عمل کے دوران خارج کر کے ماحول میں شامل کرتے ہیں اور 2 فیصد حصہ دیگر قدرتی عوامل سے پیدا ہوتا ہے۔‘‘
سیما شفیق کے مطابق فائٹو پلانکٹن سمندری حیات کی فوڈ چین کی پہلی اور مرکزی کڑی بھی ہیں، ''یہ خوردبینی نباتات چھوٹی مچھلیوں کی خوراک ہیں، جو اپنی سے بڑی مچھلیاں جیسے وھیل، سنیل اور جھینگے وغیرہ کی خوراک بن جاتی ہیں۔ اس طرح فائٹو پلانکٹن انسانوں کی زندگی پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں کیونکہ یہ ہمیں سانس لینے کے لیے آکسیجن کے علاوہ سمندری غذا بھی فراہم کرتے ہیں۔‘‘
سیما شفیق مزید بتاتی ہیں کہ صرف یہی نہیں سمندر کی تہہ میں صدیوں سے جمع ہوتا مردہ فائٹو پلانکٹن کا فضلہ کاربن کا وسیع وعریض قدرتی ذخیرہ ہے۔ ان کے مطابق فائٹو پلانکٹن پیدائش کے بعد کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کر کے از خود ختم ہو جاتے ہیں اور ان کا فضلہ یا فالتو مادہ سمندر کی تہہ میں بیٹھ جاتا ہے، ''یہ فوسلز زمینی قوتوں کے زیر اثر خام تیل میں تبدیل ہو جاتے ہیں، جسے ہم ٹرانسپورٹ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔‘‘
کلائی میٹ سائیکل میں فائٹو پلانکٹن کا کردار کیا ہے؟
سیما شفیق نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سمندر جن نباتات کے ذریعے آکسیجن پیدا کرتے ہیں انہیں فائٹو پلانکٹن، کیلپ اور آلگل کہا جاتا ہے۔ فائٹو پلانکٹن کی ایک خاص قسم "پروکلوروکوکس" جو ماحول میں ٹنوں کے حساب سے آکسیجن خارج کرتی ہے۔ یہ جسامت میں اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ پانی کے ایک قطرے میں ہزاروں پلانکٹن سما سکتے ہیں۔
سیما کے مطابق فائٹو پلانکٹن گلوبل کلائی میٹ سائیکل کو رواں اور متوازن رکھنے میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ خوراک کی تیاری کے عمل میں سمندری پانی سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں ورنہ سمندری پانی میں شامل ہو کر یہ گیس اس کی تیزابیت میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ ہوا میں آکسیجن خارج کر کے ماحول میں کاربن کی مقدار کو کم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
محقق سیما شفیق مزید بتاتی ہیں کہ اس طرح فائٹو پلانکٹن ماحول یعنی کرۂ ہوائی سے بائیو سفیئر تک کاربن سائیکل کو کنٹرول کرتے ہیں، ''یہی کاربن سائیکل صدیوں سے زمین کے کلائی میٹ کو متوازن رکھے ہوئے تھی جس میں بگاڑ انسان نے اپنی غیر ذمہ دارانہ سر گرمیوں سے ڈالا ہے۔‘‘
پاکستان کے سمندروں میں فائٹو پلانکٹن کی نشونما کیسے متاثر ہو رہی ہے؟
سینیئر ماہر سمندری حیات سید منیر نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ مینگروز کے جنگلات انتہائی متنوع ایکولوجیکل انوائرمنٹ تشکیل دیتے ہیں، جو پلانکٹن سمیت متعدد حیاتیاتی کمیونیٹیز کی نشونما اور گروتھ کے لیے ضروری ہے۔ یہ جنگلات ان انواع کے قدرتی مسکن کے لیے درکار عوامل جیسے سورج کی روشنی، درجۂ حرارت، نمکیات اور نمو وغیرہ کو برقرار رکھنے میں مدد کے علاوہ سمندری موجوں کے دباؤ سے ان کی حفاظت کرتے ہیں۔
سید منیر کے مطابق مینگروز کے درختوں کی سمندر کے اندر تک پھیلی ہوئی جڑیں فائیٹوپلانکٹن کی نشونما میں معاونت کرتی ہیں۔ پاکستان میں سینڈز پٹ، ہاکس بے اور دیگر ساحلی مقامات پر مینگروز کے جنگلات کا رقبہ تیزی سے گھٹ رہا ہے، جس سے فائیٹو پلانکٹن کی گروتھ بھی متاثر ہوئی ہے۔
دوسری جانب سیما شفیق کے بقول پاکستان کے ساحلی علاقوں کے آس پاس فیکٹریاں اور کول پاور پلانٹ کے قیام کے بعد صنعتی فضلہ براہ راست سمندروں میں شامل ہو رہا ہے، جس سے سمندری پانی میں بھاری دھاتوں جیسے سلفر، نکل، زنک اور آئرن کی مقدار بہت بڑھ گئی ہے۔ یہ بھاری دھاتیں فائٹو پلانکٹن کو زہریلا کر رہی ہیں جس سے ان کی کاربن جذب کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ سمندری ایکو سسٹم پر پڑنے والے یہ مہلک اثرات کاربن سائیکل اور لا محالہ کلائیمیٹ سائیکل میں بڑی تبدیلیوں کا سبب بن رہے ہیں۔
سیما شفیق کے مطابق اس حوالے سے ماہرین میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے اولین ممالک میں سے ایک ہے،''مگر عام افراد آگاہ نہیں ہیں کہ ہماری چھوٹی چھوٹی سرگرمیاں قدرتی ایکو سسٹم کو کس طرح تباہ کر رہی ہیں۔‘‘