پاکستان کے سیاحتی علاقوں میں کورونا کیا کر رہا ہے؟
27 اگست 2021جب میں شمالی علاقوں کی سیاحت کے لیے لاہور سے روانہ ہوا تو یہ ایک بہت گرم دن تھا، درجہ حرارت دن کے اولین اوقات میں ہی چالیس سینٹی گریڈ سے اوپر جا چکا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں ہماری گاڑی موٹر وے پر تھی اور ہم اسلام آباد کی طرف محو سفر تھے۔
سیاحتی سیزن کے عروج کے دن ہونے کی وجہ سے لاک ڈاؤن اور کورونا کی پابندیوں سے آزاد ہونے والے ملک بھر کے بہت سے شہریوں کا رخ ملک کے شمالی علاقوں کی طرف تھا۔ اگرچہ پاکستان میں کورونا کی شرح کئی دوسرے ملکوں کی نسبت اب بھی کچھ کم ہے لیکن چوتھی لہر کے چرچے میڈیا میں سامنے آ رہے تھے۔ اسی لیے ہماری چیک لسٹ میں ماسک، سینیٹائزر، ضروری ادویات کے ساتھ ساتھ میڈیکل ہیلپ لائن کے نمبر بھی موجود تھے۔
اس ٹور کے آغاز پر ہمارا پہلا پڑاؤ اسلام آبا کا میریٹ ہوٹل تھا۔ ہمیں یہ دیکھ کر اچھا لگا کہ وہاں کورونا ایس او پیز پر عمل کیا جا رہا تھا۔ اس ہوٹل میں داخلے کے لیے اچھے خاصے 'مراحل‘ سے گزرنا پڑا۔ یہاں پہنچنے کے بعد جب میں ہوٹل کا واش روم استعمال کر کے نکلا تو ماسک لگانا بھول گیا۔ اس پر ہوٹل کے عملے نے مجھے بغیر ماسک ڈائننگ ہال میں جانے سے روک دیا۔ میں نے ماسک لگایا تو پھر ہی کھانے کی میز تک پہنچ سکا۔
ہوٹل سے نکل کر اسلام آباد کے سب سے بڑے بک سٹور پر پہنچے تو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ نہ صرف بک سٹور بلکہ جناح سپر مارکیٹ میں زیادہ تر لوگ بغیر ماسک کے پھر رہے تھے۔ سب سے برا حال ایک بڑے شاپنگ مال کا تھا، جہاں ملک بھر سے اسلام آباد آنے والے سیاحوں کا رش لگا ہوا تھا لیکن ایس او پیز پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر تھا۔
اگلی صبح ہم خوبصورت فطری نظاروں سے مزین ہزارہ موٹروےکے ذریعے ناران کی طرف رواں دواں تھے۔ عالمی معیار کی اس سڑک پر پہاڑوں میں سرنگیں کھود کر جو راستے بنائے گئے ہیں وہ کسی فلمی سین کا حصہ دکھائی دے رہے تھے۔ اس موٹر وے پرموجود قیام و طعام کے مقامات بھی سیاحوں سے بھرے ہوئی تھے۔ میں نے ایک فوڈ سٹال والے لڑکے سے پوچھا کہ بغیر ماسک کے آپ کے چائے بنانے پر سیاح اعتراض نہیں کرتے تو اس کا کہنا تھا کہ صرف آپ پریشانی سے دوچار ہیں باقی توسب 'ٹھیک ٹھاک‘ ہیں۔
موٹروے سے اتر کر مانسہرہ کے راستے بالا کوٹ پہنچے تو بازاروں میں لوگوں کا رش اور شاہراہوں پر گاڑیوں کے ہجوم نظر آئے۔ غور کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ سب لوگ بھی 'ٹھیک ٹھاک‘ تھے۔
ہم سطح زمین کو پیچھے چھوڑتے ہوئے بلندیوں کی طرف رواں دواں تھے، فضا میں خنکی بڑھ رہی تھی اورموسم کی حدت چپکے سےکہیں غائب ہو گئی تھی۔ دریائے کنہار ہمارے ساتھ ہم سفر تھا، پہاڑوں میں گھرے اور سبزے سے سجے راستے میں چھوٹے چھوٹے اسٹالز پر تازہ فروٹ، رنگ برنگے مقامی پارچہ جات، چھتریاں اور خشک میوہ جات فروخت ہو رہے تھے۔ ہزاروں لوگوں کی اس گزرگاہ پر کہیں کوئی ماسک یا سینیٹائزر بیچنے والا نظر نہیں آیا۔
ہم سر راہ دریائے کنہار کے پانیوں کے ساتھ بنے ہوئے ایک چھوٹے سے ہوٹل میں چائے پینے کو رکے تو شفاف پتھروں سے ٹکرانے والے دریائے کنہار کے پانی کی مترنم آوازیں ہمارے کانوں کی سماعتوں میں رس گھول رہی تھیں۔ میں نے اپنا سفری سامان دریا کے کنارے رکھی کرسی پر رکھا اور دریا میں پاؤں ڈال کر محظوظ ہونا چاہا لیکن پانی اتنا ٹھنڈا تھا کہ میڑی ٹانگیں سردی سے شل ہو کر رہ گئیں۔
تھوڑی ہی دیر بعد ہم پھر محو سفر تھے، دور پہاڑوں پر بنے ہوئے گاؤں کے گھروں پر کیے گئے رنگ برنگے پینٹ بڑے بھلے لگ رہے تھے۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے کسے نے رنگ برنگے ڈبے پہاڑ پر رکھ دیے ہوں۔ ایک شخص پہاڑی راستوں پر بکریوں کا ریوڑ لے کر جا رہا تھا۔ ایک اور جگہ پہاڑی کے تنگ سے راستوں پر بچے بھاگتے کھیلتے نظر آئے تو ان کی بے خوفی دیکھ کر حیرانی ہوئی۔
اسی راستے پر سی پیک کی تحت ایک منصوبہ بھی زیر تکمیل ہے۔ وہاں موجود چینی باشندوں کی حفاظت کے تحت یہاں پر اس جگہ سے تیز تیز نکل جانے کے بورڈ نظر آئے۔
ناران پہنچ کر گلیوں میں پھرنے والا بچپن کے زمانے کا وہ بوڑھا پٹھان تاجر بہت یاد آیا، جو قالین کی قیمت پچیس ہزار بتا کر آٹھ سو میں دے جاتا تھا۔ آن لائن اٹھائیس ہزار روپے فی رات کرائے والے ناران کے ہوٹل بھاؤ تاؤ کرنے پر سات آٹھ ہزار میں مل رہے تھے۔
چونکہ زیادہ تر ہوٹلوں میں کورونا کے ایس او پیز کا خیال نہیں رکھا جا رھا تھا اس لیے ہم نئے بنے ہوئے ایک ایسے ہوٹل میں چلے گئے جس کا آغاز چند دن پہلے ہوا تھا اور ہم اپنے کمرے کے غالبا پہلے مکین تھے۔
ہمارے کمرے کی کھڑکی سے حد نظر تک پھیلا ہوا صاف نیلا آسمان، بلند و بالا پہاڑوں کی برف پوش چوٹیاں اور ناران بازار میں چلتے پھرتے سیاح سب دکھائی دے رہے تھے۔ رات کو ناران کا مرکزی بازار سیاحوں سے بھر جاتا ہے، اس بازار میں پشاوری ٹوپیاں، مقامی کپڑے، زیورات، شالیں، موبائل فون سے متعلقہ سامان، ڈرائی فروٹ سمیت بہت کچھ دستیاب تھا۔
کچھ دکانوں پر معروف ترک ڈرامے ارطغرل کے ہیرو کے نام سے بچوں کے لیے کھلونے کے طور پر بنائی گئی پلاسٹک کی تلوار اور اسی طرح ترگت کا کلہاڑا بھی فروخت ہو رہا تھا۔ خواتین اس ڈرامے کی ہیروئن کی ٹوپی پہن کر تصویریں بنوا رہیں تھیں۔ بازار میں سیاحوں کا اس قدر رش تھا کہ تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ لیکن ہمیں اس وقت بہت عجیب لگا جب ہمیں یہ احساس ہوا کہ بازار کے اس حصے میں جہاں ہم موجود تھے صرف ہم نے ماسک پہن رکھے تھے۔
بازار کے ایک کونے میں موجود علاقے کے ایک مقبول ترین ہوٹل کے باہر اور اندر سینکڑوں لوگ موجود تھے لیکن نہ کہیں ماسک کی پابندی تھی، نہ وہاں سینی ٹائزر نظر آیا اور نہ ہی کوئی سماجی فاصلے کا خیال رکھ پا رہا تھا۔
کھانے کے بعد کشمیر اور گلگت کی طرف سے آنے والے بعض سیاحوں سے بھی گپ شپ کا موقع ملا حیرت کی بات تھی کہ ساری اطلاعات یہی ظاہر کر رہی تھیں کہ سیاحتی مقامات پر کورونا کے حوالے سے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی شدید ضرورت ہے۔
اگلے دن وادی کاغان کے شمال میں ایک سو پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر ہم بابو سر ٹاپ پہنچے جو کہ وادی کاغان کا بلند ترین مقام ہے اور قراقرم روڈ کو وادی چلاس سے ملاتا ہے۔ یہ جگہ سطح سمندر سے چار ہزار میٹر سے بھی زیادہ بلندی پر واقع ہے۔
دلفریب قدرتی مناظر سے بھرپور اس مقبول سیاحتی مرکز پرآ کر لگتا ہے جیسے پہاڑ اپنی بلندیوں کو کھو چکے ہیں۔ اور پہلے دور نظر آنے والے پہاڑوں کی چوٹیاں اب آپ کے ساتھ آ ملی ہوں۔ یہاں کورونا ایس او پیز تو دور کی بات ہے، یہاں پر واش روم کی مناسب سہولت موجود ہے اور نہ ہی کوئی سیاحوں کی دیکھ بھال کا مناسب انتظام ہے۔
کچھ اس سے ملتی جلتی صورتحال جھیل سیف الملوک کی بھی ہے۔ جیپوں کے ڈرائیور ہوں یا پھر دوکانوں پر آرڈر لینے والے ویٹر۔ کس نے ٹیسٹ کروایا ہے کس سے ویکسین لگوائی ہے کوئی نہیں جانتا۔
اگلے روز شوگران پہنچے تو اس دشوار گزار مقام پر سیاحوں کی تعداد اتنی کم تھی کہ کورونا ایس او پیز پر خود سے ہی عمل ہو رہا تھا۔ ہم شوگران کے جنگلوں میں دور تک واک کرتے گئے تو وہاں پہاڑوں پر موجود گھروں کی خواتین نے بتایا کہ اس علاقے میں کورونا کا کوئی کیس ابھی سننے میں نہیں آیا شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں تک عام لوگوں کی رسائی آسان نہیں ہے۔
ان علاقوں کی سیر کے بعد گھر پہنچے تو معلوم ہوا کہ کاغان ڈیوویلپمنٹ اتھارٹی نے ناران، کاغان اور شوگران کے اڑتالیس ہوٹلوں اور ان کے عملے میں کورونا کی تصدیق ہونے کے بعد سیل کر دیا ہے اور اب سیمپلنگ کا دائرہ وسیع کیا جا رہا ہے۔ وہاں سے موصولہ تازہ اطلاعات کے مطابق وہاں بعض ہوٹلوں کو سیاحوں کی تکلیف کے پیش نظر کھول دیا گیا ہے۔
اس دوران پاکستان کے ایک معروف ٹور آپریٹرنوید احسن سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ وہ زیادہ تر کارپوریٹ سیکٹر میں کام کرتے ہیں اور ان کے کاروبار کا انحصار ہی زیادہ سے زیادہ سیاحوں کی ان علاقوں میں آمد پر منحصر ہے ۔ ان کے بقول ایسا تب ہی ممکن ہے جب کورونا کے ایس او پیز پر سو فیصد عمل کیا جائے۔
ان کے خیال میں سیاحوں کے لیے ان سیاحتی مقامات پر آگاہی مہمات چلائی جانی چاہییں، یہاں پر کورونا کے حوالے سے ٹیسٹ اور ابتدائی طبی امداد کے خصوصی مراکز قائم کیے جانے چاہییں۔ ٹورسٹ کمپنیوں اور اس علاقے میں کام کرنے والے ورکروں کے لیے تربیتی سیشنز کا اہتمام ہونا چاہیے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ گلگت میں ویکسین نہ کروانے اور کورونا نیگٹیو سرٹیفکیٹ نہ رکھنے والوں کے داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت سیاحتی علاقوں کے لیے ایسی تفصیلی پالیسی کا اعلان کرے، جس سے کورونا بھی نہ پھیلے اور سیاحت بھی متاثر نہ ہو۔