پاکستان کے سیاسی درجہء حرارت میں مسلسل اضافہ
26 اپریل 2017پاکستانی میڈیا میں بدھ کے دن ڈان لیکس کی خبر چھائی رہی اور اس پر تبصرے ہوتے رہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ پانامہ کیس کی جے آئی ٹی نے بھی پاکستانی سیاسی ماحول میں گرمی پیدا کی ہوئی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے حامی سمجھے جانے والے ایک چینل نے ایک یہ خبر بریک کی کہ ایف آئی اے کے دو سینئیرافسران چھٹی پر چلے گئے ہیں۔ چینل کے مطابق حکومت جے آئی ٹی میں اپنے منظورِ نظر افسر کو رکھنا چاہتی ہے تاکہ وہ اس کی رپورٹ پر اثر انداز ہو سکے۔
تجزیہ نگاروں کے خیال میں جب سے پامانہ کیس کا فیصلہ ہوا ہے، پاکستان کے سیاسی ماحول میں تلخی بڑھتی جارہی ہے۔ اس فیصلے کے فورا بعد حزبِ اختلاف و حکومت دونوں نے جشن منا کر اسے اپنی کامیابی قرار دیا لیکن بعد میں حزبِ اختلاف نے حکومت کے خلاف بھر پور مہم شروع کر کے نواز شریف کے استعفیٰ کا مطالبہ کر دیا۔
پاکستان: الیکشن کمیشن نے وزیراعظم نا اہلی کیس کی سماعت روک دی
پانامہ لیکس کا نہ ختم ہونے والا سایہ
پاناما لیکس پر دباؤ کے شکار کیمرون اب کرپشن کے خلاف سرگرم
پی پی پی کے خورشید شاہ اور اعتزاز احسن نے جے آئی ٹی کی شفافیت پر ابھی سے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ دونوں رہنماوں نے نواز شریف کی آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل نوید مختار سے رشہ داری کا بھی تذکرہ کیا، جس پر آئی ایس پی آر کو بھی ردِعمل ظہر کرنا پڑا۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر پانامہ کیس کا فیصلہ سنانے والے ایک جج پر یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ انہیں حکومت کی طرف سے کرڑوں روپے کا ایک پلاٹ دیا گیا ہے۔
ان بیانات سے ماضی میں حلیف سمجھے جانے والی پی پی پی اور ن لیگ میں محاذ آرائی شروع ہو گئی۔ پہلے عابد شیرعلی ، شہباز شریف اور دوسرے لیگی رہنماوں نے زرداری صاحب کے خلاف سخت بیانات دیے، بعد میں پی پی پی نے اس کا بھر پور مقابلہ کیا۔ ادھر عمران خان نے منگل کو یہ دعویٰ کر کے ایک اور سیاسی دھماکا کر دیا کہ انہیں پانامہ کیس پر خاموش رہنے کے لیے دس ارب روپے کی پیش کش کی گئی تھی۔ ن لیگ نے اس بیان پر عمران خان کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اس پر انکوائری ہونی چاہیے۔ پی پی پی نے اس مسئلے پر بھی ن لیگ کے خلاف انکوائری کا مطالبہ کر دیا۔
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستانی سیاست میں آنے والے دنوں میں مزید حدت آئے گی۔ معروف تجزیہ نگار ڈاکڑ توصیف احمد خان نے اس صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ’’ڈان لیکس میں ایسی کوئی بات نہیں تھی کہ جو پہلے نہ کہی گئی ہو۔ یہ تو وہ بات تھی، جو بین الاقوامی برادری تسلسل سے کہہ رہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے اس کو بلا وجہ ایک مسئلہ بنا کر سویلین حکومت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی اور اب وہ اس رپورٹ کے آنے پر حکومت کو دباؤ میں لانے کی کوشش کریں گے۔ پی پی پی ڈاکڑ عاصم کے مسئلے پر نواز لیگ سے انتقام لینا چاہتی ہے جب کہ پی ٹی آئی بھی ن لیگ کے خلاف میدان میں آنے کے لیے تیار ہے۔ حزب اختلاف کی یہ پالیسی فوج کو مضبوط کرے گی، جو ایک طرف اپوزیشن کے احتجاج سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت کو دباؤ میں لے گی اور دوسری طرف جے آئی ٹی پر اثر انداز ہو کر حکومت کے لیے مشکلا ت پیدا کرے گی۔ تو آنے والے ہفتوں میں سیاسی ماحول بھی گرم ہو گا اور حکومت کے لیے مشکلات بھی بڑھیں گی۔‘‘
لیکن کئی سیاسی تجزیہ نگاروں کے خیال میں سیاسی درجہ حرارت اس لیے بڑھ رہا ہے کہ انتخابات قریب آرہے ہیں۔ معروف تجزیہ نگار کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے اس حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’میرے خیال میں سیاست دان سیاسی حدت کو اس لیے بڑھا رہے ہیں کیونکہ انتخابات صرف ایک سال کے فاصلے پر ہیں۔ آب دیکھیں کہ زرداری نے صرف نواز پر تنقید نہیں کی ہے بلکہ وہ عمران خان پر بھی برسے ہیں۔ جہاں تک عمران خان کی بات ہے تو وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ پہلے وہ ایک بیان دیتے ہیں اور پھر کچھ ہی گھنٹوں میں اس کے خلاف بیان دیتے ہیں۔ وہ کان کے کچے ہیں۔ کبھی کچھ جہانگیر ترین کے کہنے پر کہتے ہیں اور کبھی شاہ محمود کے کہنے پر۔ ان کی اپنی کوئی رائے نہیں ہوتی۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انعام نے کہا، ’’میرے خیال میں اس بڑھتے ہوئے سیاسی درجہ حرارت سے حکومت کو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا کیونکہ اب آرمی اور حکومت کے درمیان تعلقات اچھے ہیں۔ آرمی بس اب اپنے کام سے کام رکھے گی۔ یہ تو آئی ایس پی آر کے عاصم باجوہ تھے، جنہوں نے جنرل راحیل کا اتنا بڑا امیج بنا دیا تھا اور جس سے سول ملٹری تعلقات بھی خراب ہوئے۔ ڈان لیکس کے مسئلے پر فوج اور حکومت میں کوئی اختلاف نہیں، اگر ہوتا تو فوج کے نمائندہ اس رپورٹ پر دستخط نہ کرتا۔‘‘
ن لیگ اعتراف کرتی ہے کہ گو کہ اس کی حکومت کو چیلنجوں کا سامنا تاہم اس کا دعویٰ ہے کہ اس کے فوج سے تعلقات اب بہتر ہیں۔ اس حوالے سے ن لیگ کے رہنما سینیٹر راجہ ظفر الحق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’دنیا میں کس حکومت کو چیلنجوں کا سامنا نہیں ہوتا، ہمیں بھی ہے اور ہم انشاء اللہ اس پر قابو بھی پالیں گے۔ عمران خان کا دس ارب روپے والا دعویٰ خود ان کے لیے مشکلات پیدا کرے گا کیونکہ یہ دعویٰ جھوٹا ہے۔‘‘ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’یہ تاثر غلط ہے کہ ہمارے فوج سے تعلقات خراب ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ تعلقات ماضی کی نسبت بہت بہتر ہیں۔‘‘