پاکستان کے لیے امداد، امریکی محکمہ خارجہ کا دفاع
7 دسمبر 2011ریبپلیکن سینیٹروں جان مکین اور لنڈسے گراہم کا کہنا ہے کہ پاکستان کو دی جانے والی اقتصادی اور عسکری امداد سے امریکی مفادات حاصل ہوتے ہیں یا نہیں، اس بات کے تعین کے لیے مکمل نظرثانی ہونی چاہیے۔
تاہم محکمہ خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر کا کہنا ہے: ’’ہمیں یقین ہے کہ پاکستان کے لیے ہماری معاونت امریکی عوام کے فائدے کے لیے ابھی تک جاری ہے، جس کا مقصد پاکستان کے جمہوری اداروں کی ترقی اور استحکام کے ساتھ ساتھ وہاں کی معیشت کو بہتر بنانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ طویل المدتی تناظر میں یہی وہ اہداف ہیں، جنہیں واشنگٹن انتطامیہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔
امریکی سینیٹ کی انٹیلیجنس کمیٹی کی سربراہ ڈایان فائنسٹائن کا بھی یہی کہنا ہے کہ پاکستان کی عسکری اور اقتصادی امداد میں کٹوتی کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ تاہم انہوں نے یہ کہتے ہوئے خبردار بھی کیا ہے کہ اس حوالے سے مطالبات کو کانگریس میں حمایت حاصل ہے۔
فائنسٹائن نے منگل کو واشنگٹن میں صحافیوں سے بات چیت میں کہا: ’’جو بات میری سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ تعلقات کی بحالی کے لیے کچھ کوششیں جاری ہیں۔ یہ اچھا ہے، لیکن مجھے خدشہ ہے کہ اگر رقوم کی کٹوتی کے لیے بل پیش کیا گیا، تو اس کی منظوری کے امکانات روشن ہیں۔‘‘
گزشتہ ماہ افغانستان کی سرحد سے ملحقہ علاقے میں پاکستانی فوجی چوکیوں پر نیٹو کے حملوں کے بعد امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں مزید کشیدگی آئی۔ اس کے ردِ عمل میں پاکستان نے پیر کو جرمنی کے شہر بون میں افغانستان کے موضوع پر ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس کا بائیکاٹ کیا جبکہ چھبیس نومبر کے ان حملوں کے فوراﹰ بعد نیٹو کا سپلائی رُوٹ بھی بند کر دیا تھا، جو تاحال بند ہے۔
خبر رساں ادارے اے پی نے منگل کو امریکی وزارتِ دفاع کے ذرائع حکام کے حوالے سے بتایا کہ ان کی فوج افغانستان میں رسد کی فراہمی کے لیے کسی حد تک متبادل رُوٹ استعمال کر رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ متبادل راستے سے پہنچنے والی رسد میں اسی نوعیت کا سامان شامل ہے، جو دراصل پاکستان کے راستے وہاں پہنچنا تھا۔
رپورٹ: ندیم گِل / خبر رساں ادارے
ادارت: عدنان اسحاق