1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'عمران خان کے لیے تخت یا پھر تختہ دار'، بھارتی تجزیہ کار

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
12 مئی 2023

پاکستان کی موجودہ صورت حال اور سیاسی بحران کے حوالے سے بھارت میں بھی خاصی دلچسپی پائی جاتی ہے۔ بیشتر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستانی فوج اس موقع سے فائدہ اٹھا کر ایک بارپھر اقتدار اپنی گرفت مضبوط کرنے کی کوشش کرے گی۔

https://p.dw.com/p/4RFl8
Pakistan Ex-Premierminister Imran Khan
تصویر: Imran Khan/Twitter/REUTERS

پاکستان میں گزشتہ چند دنوں سے جو کچھ بھی ہو رہا ہے، اس پر بھارتی میڈیا کی بھی قریبی نگاہ ہے۔ بھارتی میڈیا میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد سے ہر لمحے کی خبریں براہ راست نشر ہو رہی ہے۔ تاہم عموماً اس صورت حال پر بہت زیادہ فکر یا تشویش ظاہر کرنے کے بجائے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی رہے کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ اچھا ہے، کیونکہ یہ پاکستان کی اپنی ''کرتوت کا نتیجہ'' ہے۔

پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے خلاف کریک ڈاؤنز کی تاریخ

اس صورت حال پر بعض معروف اخبارات نے اپنے اداریے بھی شائع کیے ہیں اور' پاکستان میں سانس لیتی جمہوریت کے دم گھٹنے' پر افسوس کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔ تاہم بعض حلقے یہ بھی کہتے ہیں کہ ''بدعنوان فوج اور ایک اسلام پسند رہنما عمران خان کے درمیان، کوئی بہتر انتخاب بھی بڑا مشکل کام ہے۔''

پاکستان: پی ٹی آئی رہنماؤں کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری

 انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس نے اپنے اداریے میں عمران خان کی گرفتاری کو فوج کی اسکرپٹ بتایا۔ اخبار کے مطابق اگر سب کچھ اس کی ا سکرپٹ کے مطابق ہوتا ہے، تو "عمران خان کو متعدد مقدمات میں سزا ہو سکتی ہے اور انہیں انتخابات کے لیے نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ بالکل اسی طرح ہو گا، جیسے ان کے پیشرو نواز شریف کے ساتھ ہوا تھا اور فوج نے ہی اس میں اہم کردار ادا کیا تھا۔''

پاکستانی سپریم کورٹ کا عمران خان کی فوری رہائی کا حکم

معروف صحافی اور بھارتی ایڈیٹر گلڈز کے سابق جنرل سیکریٹری سنجے کپور کہتے ہیں کہ اس بحران کو بھارت میں اس طرح پیش کیا جا رہا ہے جیسے، ''پاکستان ایک ناکام ریاست ہے۔'' ان کے مطابق عموماً بڑی منفی شبیہ پیش کی جا رہی ہے کہ اب ''ان کا دوست بھی انہیں نہیں پو چھ رہا ہے۔''

Pakistan Islamabad I nach Verhaftung Imran Khan
عمران خان پاکستان کے راجہ بن کر ابھریں گے، یا پھر وہ تاریخ کی ردی کی ٹوکری بن جائیں گے۔ میرے خال سے کوئی درمیانی راستہ نہیں ہے۔ یا تو تخت پر ہوں گے یا پھر تختہ دار پرتصویر: AAMIR QURESHI/AFP

انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت میں کہا کہ ایک ''تاثر یہ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جو مسلمان بھارت میں ہیں وہ کہیں بہتر حالت میں ہیں، کیونکہ پاکستان تو ایک ناکام ریاست ہے اور وہاں عدم استحکام ایک عام بات ہے۔''

بحران زدہ پاکستان میں عام آدمی پر کیا گذر رہی ہے؟

 یا تو فتح یہ پھر وجود کا خاتمہ

ڈی ڈبلیو اردو نے تازہ صورت حال کے حوالے سے نئی دہلی میں موجود سیاسی اور اسٹریٹیجک معاملات کے ماہرین سے بات کی، جن کا کہنا ہے کہ پاکستانی فوج ایک بار پھر صورت حال سے فائدہ اٹھا کر ''اقتدار پر اپنی آہنی گرفت مضبوط'' کرنے کی کوشش کرے گی۔

عمران خان کی گرفتاری اور مظاہروں کے درمیان پی ٹی آئی کے تمام بڑے رہنما گرفتار

معروف تجزیہ کار سو شانت سرین سے جب سوال کیا گیاکہ یہ صورت پاکستان کو کس جانب لے جا سکتی ہے، تو انہوں نے کہا، '' پاکستان کھائی کی طرف جا رہا ہے۔''  ان کا کہنا ہے کہ ''یہ سزا ان کی اپنی کرتوت کی ہے۔ بھارت میں اس پر بہت زیادہ تشویش نہیں ہے، بلکہ اسے مکافات عمل کہا جا رہا ہے۔''

القادر ٹرسٹ کیس سے عمران خان اور ملک ریاض کا کیا تعلق ہے؟

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ''یا تو عمران خان پاکستان کے راجہ بن کر ابھریں گے، یا پھر وہ تاریخ کی ردی کی ٹوکری بن جائیں گے۔ میرے خال سے کوئی درمیانی راستہ نہیں ہے۔ یا تو تخت پر ہوں گے یا پھر تختہ دار پر۔''

پاکستان کی سیاست اور وہاں کے حالات پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار قمر آغا کہتے ہیں کہ معاشی بد حالی کے سبب ''لوگوں میں غصہ بہت ہے، بے روزگاری اور افراط زر کی شرحیں بھی بہت زیادہ ہیں۔ اس پر قابو نہ پایا گیا تو ''پاکستان مزید مشکل میں پھنس جائے گا۔''

Pakistan Polizisten
ٹکراؤ کی جو صورت ہے، اس میں فوج ہی مزید مضبوط ہو کر ابھرے گی, تاہم اگر حالات قابو میں نہ آئے تو، ''فوج کی شبیہ کمزور بھی ہو سکتی ہےتصویر: Anjum Naveed/AP Photo/picture alliance

تاہم وہ کہتے ہیں کہ ''فوج اب عمران خان کو اقتدار میں آنے نہیں دے گی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جس رہنما نے بھی فوج کے خلاف آواز اٹھائی اس کا کیا حشرہوا۔'' ان کا کہنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو اور پھر ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو نے ''فوج کو بیرک میں بھیجنے کی بات'' کہی تھی، پھر نواز شریف نے بھی کوشش کی، اب عمران خان بھی فوج کے بجائے اقتدار منتخب حکومت کے پاس لانے کی باتیں کرتے رہے ہیں، ''تاہم ہمیں سب کا انجام معلوم ہے۔''     

پاکستانی فوج کا کردار اور امکانات

سنجے کپور کہتے ہیں کہ بھارت میں ''عمران خان کے لیے کوئی ہمدردی نہیں ہے، تاہم اس بات کی خوشی بھی ہے کہ فوج کمزور پڑ رہی ہے۔''

ان کا کہنا ہے کہ یہ بات واضح ہے کہ ''فوج کا کنٹرول اب مزید بڑھ جائے گا۔ میرے خیال سے بڑی ناامیدی ہے۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ آگے کب کیا ہو گا۔''

 سوشانت سرین بھی ان سے متفق ہیں اور کہتے ہیں کہ ٹکراؤ کی جو صورت ہے، اس میں فوج ہی مزید مضبوط ہو کر ابھرے گی۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اگر حالات قابو میں نہ آئے تو، ''فوج کی شبیہ کمزور بھی ہو سکتی ہے۔''

وہ کہتے ہیں: ''فوج حالات پر قابو پانے کے بعد حکومت پر مزید حاوی ہونے کی کوشش کرے گی اور اپنا دبدبہ بڑھائے گی۔ ایک طرح سے فوج کا نقصان بھی بہت ہے کیونکہ اس کا وقار کم ہو گا اور عوامی مقبولیت میں کمی آئے گی۔ جن حلقوں میں وہ مقبول تھی وہاں اس کا طلسم ٹوٹ چکا ہے۔ اس صورت میں فوج اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کرے گی اور اس سے عوام میں مقبولیت کم ہو گی۔'' 

قمر آغا کہتے ہیں کہ چونکہ پابندیوں کا خطرہ ہے اس لیے فی الوقت ''فوج اقتدار پر قبضہ کرنے سے ڈرتی ہے، ورنہ اب تک وہ اقتدار سنبھال بھی چکی ہوتی۔ اس نے ابھی شہباز شریف کو آگے کر دیا ہے، تاہم تمام بڑے فیصلے وہ خود لے رہی ہے۔''

قمر آغا کے مطابق پاکستان فی الوقت ایک سنگین سیاسی بحران کی زد میں ہے، جہاں پہلے سی ہی بہت سے معاشی اور دہشت گردی کے مسائل تھے، اگر اس کو فوری طور پر درست نہ کیا گیا تو علاقائی طاقتیں مزید اپنا سر ابھاریں گی اور اس سے افراتفری میں اضافہ ہونے کے ساتھ ہی عدم استحکام بھی بڑھے گا۔

بھارت میں ایک طبقہ یہ کہتا رہا ہے کہ خطے میں امن کے لیے ایک مستحکم پاکستان کا ہونا ضروری ہے۔ تاہم سنجے کپور کہتے ہیں بھارتی حکومت کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ''پاکستان میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ پاکستان کے لیے برا ہے۔ دہلی کی حکومت کو لگتا ہے کہ پاکستان اس کے لیے اب کوئی اہمیت نہیں رکھتا اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کا بھارت پر کوئی خاص اثر بھی نہیں پڑے گا۔'' 

عمران خان تفتیشی ایجنسی سے تعاون کریں، سپریم کورٹ