1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کے پنجابی طالبان

30 مئی 2010

پاکستان کے پنجابی طالبان کے افغان اور قبائلی علاقوں کے طالبان کے ساتھ گہرے روابط بتائے جاتے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ گروپ جنوبی پنجاب کو مرکز بنائے ہوئے ہے۔

https://p.dw.com/p/NdCh

پنجابی طالبان کے مرکزی طالبان کے ساتھ دیرینہ روابط اب سامنے آ چکے ہیں۔ اس گروپ کی تازہ ترین کارروائی گزشتہ جمعہ کو دو احمدیہ مساجد پر حملے ہیں جن میں نوے سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ابتدائی تفتیش سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ پنجابی طالبان کے وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں میں سرگرم طالبان سے مخفی مگر انتہائی گہرے رشتے ہیں۔ یہ گروپ بھی انتہاپسند افغان طالبان اوردہشت گرد تنظیم القاعدہ سے متاثرہے۔

پاکستانی سکیورٹی حکام کے مطابق پنجابی طالبان کا صوبہ پنجاب میں بظاہر کوئی مضبوط گڑھ نہیں ہے لیکن خیال ہے کہ جنوبی پنجاب جو کہ سرائیکی زبان کی پٹی میں آتا ہے، وہاں ان کے کئی شہروں میں بنیادی ٹھکانے موجود ہیں۔ اس تنظیم میں پاکستان کے اندر کالعدم قرار دی جانے والی لشکر جھنگوی، جیش محمد اور سپاہ صحابہ کے اراکین شامل ہوچکے ہیں۔

Hakimullah Mehsud Taliban Tehrik e Taliban
تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کے زندہ ہونے کے بارے میں فیاسآرائیاں جاری ہیںتصویر: picture-alliance/ dpa

ان تنظیموں کی جنوبی پنجاب میں خفیہ موجودگی کی تصدیق پاکستانی وزیرداخلہ رحمان ملک بھی کرچکے ہیں۔ ملک کے خیال میں ان کی ابتدائی گروہ بندی کا عمل مکمل ہو گیا ہے اوراب یہ پوری طرح منظر عام پرآ گئے ہیں۔ رحمان ملک کا یہ بھی کہنا ہے کہ پنجابی طالبان مستقبل میں شیعہ مسلک کی مجالس یا مساجد کو بھی نشانہ بنانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔

یہ ایک اہم حقیقت ہے کہ پاکستان میں تقریباً 20 ہزار مذہبی مدارس قائم ہیں اور ان میں 44 فی صد صرف پنجاب میں موجود ہیں۔ ان مدرسوں میں سے صرف 29 کو اب تک بند کیا جا چکا ہے۔ اب تک 1764 افراد حکومتی واچ لسٹ پر ہونے کی وجہ سے سیکیورٹی حکام کو مطلوب ہیں۔ ان افراد میں سے 729 کا تعلق پاکستانی صوبہ پنجاب سے ہے۔

پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن رکن محسن لغاری کے مطابق پنجابی طالبان کی اکثریت نے افغان جنگ میں حصہ لینے کے علاوہ دہشت گردانہ کارروائیوں کی تربیت بھی حاصل کی ہوئی ہے۔ محسن لغاری سمیت حکومتی سیکیورٹی حکام کو یقین ہے کہ جنوبی پنجاب میں پنجابی طالبان کے گڑھ موجود ہیں۔ مگر کئی پولیس اہلکار ان رپورٹس کو من گھڑت قرار دیتے ہیں۔ ایسے اندازے لگائے جا رہے ہیں کہ اگلے مہینوں میں جنوبی پنجاب کے کئی قصبوں اور دیہات میں قائم پنجابی طالبان کے مراکز فوجی آپریشن کی زد میں آ سکتے ہیں۔ اس مناسبت سے پاکستان میں جماعت اسلامی سمیت کئی مذہبی جماعتیں ابھی سے واویلہ مچا رہی ہیں۔

Pakistan Taliban Station in Mata Swat Board Schild
پنجابی طالبان افغان طالبان اوردہشت گرد تنظیم القاعدہ سے متاثرہیںتصویر: Abdul Sabooh

پنجابی طالبان ہی کے ایک رکن حنیف گبول ہیں جو آج کل حراست میں ہیں۔ انہوں نے میانوالی میں دہشت گردی کے واقعات چھوڑ کر ہتھیار پھینکنے اورخود کو پولیس کے حوالے کر دیا تھا۔ حنیف گبول نے بھی جنوبی پنجاب کو پنجابی طالبان کا مرکز قرار دیا ہے اورگبول خود کو طالبان کا ایک کمانڈر کہتے ہیں۔ انہوں نے بھی پاکستانی قبائلی علاقے وزیرستان میں تربیت حاصل کرنے کا انکشاف کیا تھا۔ گبول پچیس کے قریب انتہاپسندوں کے گروپ کا لیڈر تھا جو کئی دہشت گردانہ واقعات ملوث تھے۔

جنوبی پنجاب کے اہم شہر بہاولپور کو انتہاپسند اور شعلہ بیان مقررمولانا اظہرمسعود کی کالعدم جیش محمد کا صدر دفتر تصور کیا جاتا ہے۔ سیکیورٹی اہلکاروں نے یقین سے کہا ہے کہ اس تنظیم سے وابستہ کئی نام نہاد مذہبی مدرسے اب بھی نوجوانوں کی بھرتی کے عمل کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ جنوبی پنجاب میں پائی جانے والی انتہائی غربت بھی اس انتہاپسندی کی ایک اہم وجہ ہے۔

رپورٹ: عابد حسین

ادارت: عدنان اسحاق