1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کے چالیس فیصد عوام غربت کا شکار

بینش جاوید20 جون 2016

پاکستان کی وزارت برائے منصوبہ بندی اور اصلاحات کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 40 فیصد آبادی کثیرالجہت غربت کا شکار ہے۔

https://p.dw.com/p/1JA9e
Pakistan - Slums in Islamabad sollen abgerissen werden
کثیر الجہت غربت میں صرف آمدنی کو ہی معیار نہیں بنایا جاتا بلکہ صحت، تعلیم اور زندگی کی بنیادی سہولیات تک رسائی کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہےتصویر: AFP

اس رپورٹ کے مطابق غربت کی سب سے زیادہ شرح فاٹا اور بلوچستان میں ہے جبکہ شہری علاقوں میں غربت کی شرح 9.3 فیصد ہے اور دیہی علاقوں میں غربت کی شرح 54.6 فیصد ہے۔

پاکستان کے قبائلی علاقہ جات یا فاٹا میں 73 فیصد اور بلوچستان میں 71 فیصد افراد غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ خیبر پختونخواہ میں 49 فیصد، گلگت بلتستان اور سندھ میں 43 فیصد، پنجاب میں 31 فیصد اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں 25 فیصد افراد غربت کا شکار ہیں۔

اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لاہور، اسلام آباد اور کراچی میں 10 فیصد سے کم افراد غربت کا شکار ہیں اور اس کے برعکس بلوچستان کے قلعہ عبداللہ، ہرنائی اور برکھان میں 90 فیصد آبادی غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔

Dürre in Thar
26 فیصد آبادی کو صحت کی سہولیات میسر نہیں ہیںتصویر: DW/R. Saeed

کثیر الجہت غربت میں صرف آمدنی کو ہی معیار نہیں بنایا جاتا بلکہ صحت، تعلیم اور زندگی کی بنیادی سہولیات تک رسائی کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق غربت کے شکار افراد میں 43 فیصد کو تعلیمی سہولیات میسر نہیں ہیں، 32 فیصد افراد غیر معیاری زندگی گزار رہے ہیں جبکہ 26 فیصد آبادی کو صحت کی سہولیات میسر نہیں ہیں۔

اس رپورٹ کو جاری کرنے کی تقریب میں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اور اصلاحات احسن اقبال نے کہا کہ ’ویژن 2025‘ کے تحت کثیرالجہت غربت کو ختم کرنا حکومت کے اہم مقاصد میں شامل ہے۔

United Nations Global Goals for Sustainable Development EINSCHRÄNKUNG
غربت کے شکار افراد میں 43 فیصد کو تعلیمی سہولیات میسر نہیں ہیںتصویر: Global Goals Visual Content Partner/Getty Images/P. Bronstein

پاکستان میں اقوام متحدہ کی ایجنسی یواین ڈی پی کے کنٹری ڈائریکٹر مارک آندرے نے کہا، ’’کثیر الجہت غربت کے اعداد وشمار ہمیں یہ معلومات فراہم کرتے ہیں کہ کن علاقوں میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘