پاکستان، گیارہ ’دہشت گردوں‘ کو پھانسی کا حکم
16 اگست 2016پاکستان کی فوج کے شعبہء تعلقات عامہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق یہ مجرمان بلوچستان پولیس کے ڈی آئی جی فیاض سنبل اور اے ایس آئی رضا خان اور آئی ایس آئی کے انسپکٹر کامران نذیر کے قتل میں ملوث تھے۔
پھانسی کی سزا پانے والوں میں وہ مجرم بھی شامل ہیں، جو فرقہ ورانہ ہلاکتوں، اغوا کی وارداتوں، ایف سی کے اہلکاروں کی ہلاکتوں اور پاکستانی فوج کے میجر مجید کے قتل میں بھی ملوث قرار دیے گئے ہیں۔ ان سب مجرمان کے کیسز کی سماعت فوجی عدالتوں میں ہوئی تھیں۔
آئی ایس پی آر نے مجرمان کے ناموں کی فہرست بھی جاری کی ہے۔ ان مجرموں میں ضیاءالحق، فضل ربی، محمد شیر، عمر زادہ، لطیف الرحمان، محمد عادل، اسرار احمد، عبدالمجید، حضرت علی، میاں سید اعظم اور قیصر خان شامل ہیں۔
پاکستان میں دسمبر 2014ء کے پشاور حملے کے بعد بنائے جانے والے نیشنل ایکشن پلان کے تحت پاکستان میں سزائے موت کے عمل درآمد پر پابندی ختم کر دی گئی تھی اور اس وقت سے اب تک 300 سے زائد افراد کو پھانسی دی جا چکی ہے۔
پاکستان نے آئین میں ترمیم کرتے ہوئے فی الحال دو سال کی مدت کے لیے فوجی عدالتیں قائم کر رکھی ہیں تاکہ دہشت گردی کے ملزمان کو جلد از جلد سزائیں سنائی جا سکیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں ان فوجی عدالتوں میں سنائے جانے والے فیصلوں کی شفافیت کے بارے میں شک کا اظہار کرتی ہیں۔
واضح رہے کہ اس ماہ کوئٹہ کے دہشت گردانہ حملے کے بعد پاکستان کی فوج نے نیشنل ایکشن پلان پر کمزور عمل درآمد کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور کہا تھا کہ اس وجہ سے آپریشن ضرب عضب متاثر ہو رہا ہے۔
کوئٹہ حملے کے بعد جنرل راحیل شریف نے بلوچستان میں دہشت گردوں کے خلاف ’کومبنگ آپریشن‘ کے آغاز کا اعلان کیا تھا۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری ایک اور بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی فوج نے آج قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں تیراہ کی وادی راجگل میں آپریشن شروع کر دیا گیا ہے۔ اس آپریشن کا مقصد خیبر ایجنسی کے پہاڑی علاقوں اور ہر موسم میں استعمال ہونے والے راستوں میں دہشت گردوں کی نقل و حرکت کو کنٹرول کرنا ہے۔