پاکستان: ہجرت کرنے والے پرندوں کی ’غیر محفوظ‘ جنت
12 مئی 2018پرندوں کی حفاظت اور ان سے متعلق تحقیق کرنے والی عالمی تنظیم برڈ لائف انٹرنیشنل کے مطابق ہر سال انتہائی شدید موسم سے بچ کر بین الاقوامی سطح پر نقل مکانی کرنے والے پرندوں کے دو انتہائی اہم فضائی راستے، وسطی ایشیا سے مشرقی ایشیا تک اور وسطی ایشیا سے مشرقی افریقہ تک، پاکستان سے ہو کر گزرتے ہیں۔ ان راستوں یا فلائی ویز کو استعمال کرنے والے پرندوں کی موجودہ تعداد ماضی کے مقابلے میں کم ہو چکی ہے، جس کی بڑی وجوہات موسمیاتی تبدیلیاں، کم ہوتے ہوئے سرسبز علاقے، آبی خطوں یا واٹر باڈیز کا کم ہوتا جانا اور ایسے پرندوں کا بے تحاشا غیر قانونی شکار ہیں۔
پاکستان کا رخ کرنے والے یا پاکستان سے ہو کر گزرنے والے پرندوں میں سے بہت سے سائبیریا یا دیگر سخت سردی والے علاقوں سے بھی آتے ہیں۔ یہ کروڑوں پرندے ہر سال ایک محدود عرصے کے لیے پاکستانی جھیلوں اور ڈیموں کے کنارے یا پھر ان گیلے سرسبز خطوں میں قیام کرتے ہیں، جنہیں ماہرین ویٹ لینڈز کا نام دیتے ہیں۔
پرندوں کی موسمی ہجرت کے حوالے سے پاکستان کے کون کون سے علاقے خاص طور پر اہم ہیں، یہ سوال ہم نے پوچھا ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ یا ڈبلیو ڈبلیو ایف کی پاکستان شاخ کے تحفظ فطرت سے متعلقہ امور کے رابطہ کار یا کنزوریشن کوآرڈینیٹر محمد وسیم سے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پاکستان میں پرندوں کی داخلی نقل مکانی بھی دیکھنے میں آتی ہے اور بین الاقوامی ہجرت بھی۔ گرم خطوں کا رخ کرنے والے پرندے پاکستان میں شمال سے لے کر دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ نیچے تک گیلی سرسبز زمینوں، جھیلوں کے کنارے یا ڈیموں والے علاقوں میں قیام کرتے ہیں۔‘‘
محمد وسیم کے مطابق پرندوں کی بین الاقوامی اور بین البراعظمی ہجرت پر منفی اثرات کی بڑی وجوہات عالمی درجہ حرارت میں اضافہ، جنگلات کا خاتمہ اور آبی علاقوں کا کم ہوتا بھی شامل ہے، لیکن ساتھ ہی غیر قانونی شکار بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔
انہوں نے بتایا، شہروں کے پھیلاو، غیر منظم سیاحت اور انسانوں کے ہاتھوں پرندوں کے خالص ماحولیاتی نظاموں کو پہنچنے والے نقصان کے بھی کافی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر خان پور ڈیم، راول جھیل، اور جھیل سیف الملوک جیسے آبی علاقوں کو تو ان پرندوں کے لیے صاف اور محفوظ رکھنے کی کوششیں کی جاتی ہیں، مگر دیگر بہت سے پاکستانی علاقے اب ان پرندوں کے لیے صاف، پرکشش یا محفوظ نہیں رہے۔
پاکستان بین الاقوامی ہجرت کرنے والے پرندوں کے جس وسطی ایشیائی فضائی راستے میں پڑتا ہے، وہ مجموعی طور پر تییس ممالک سے ہو کر گزرتا ہے۔ تقریبا ایک چوتھائی صدی پہلے پاکستان میں قریب چھ سو ستر اقسام کے پرندے پائے جاتے تھے، جن میں سے تیس فیصد کے قریب وہ مہمان پرندے ہوتے تھے، جوسردیوں میں پاکستان کا رخ کرتے تھے۔
گزشتہ چھ برسوں سے پاکستان میں پیشہ ورانہ بنیادوں پر وائلڈ لائف فوٹوگرافی کرنے والے بلال قاضی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ اب تک پاکستان کے مختلف حصوں میں چارسو دس اقسام کے پرندوں کی تصویریں بنا چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات دس سال پہلے کے مقابلے میں آج کہیں شدید اور واضح ہیں۔ بلال قاضی نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ’’پاکستان میں دیگر ممالک اور خطوں سے آنے والے پرندوں کی آمد کم ہو چکی ہے۔ سردی اور گرمی کے موسموں کی شدت تک بدل چکی ہے۔ اس وجہ سے کافی حد تک وہ فضائی راستے بھی متاثر ہو رہے ہیں، جو نقل مکانی کرنے والے پرندے اپنی پروازوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔‘‘
پاکستان میں داخلی یا بین الاقوامی ہجرت کرنے والے پرندوں کے لیے بڑے خطرات کی وضاحت کرتے ہوئے بلال قاضی نے پرندوں کے غیر قانونی شکار کو بھی ایک شدید مسئلہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا، ’’پاکستانی آبی علاقوں اور خطوں میں پرندوں کی بہت سی نسلوں کا غیر قانونی شکار بہت عام ہے۔ اس شعبے میں کام کرنے والی تنظیموں اور اداروں نے خاص طور پر سیالکوٹ اور لاہور جیسے شہروں میں تو کچھ کام کیا ہے لیکن مجموعی طور پر پورے ملک میں ابھی بہت سا کام کیا جانا باقی ہے۔ جنگلی حیات کے تحفظ کے محکمے صوبائی عملداری میں ہیں۔ وہ اپنے طور پر پوری کوششیں بھی کرتے ہیں کہ پرندوں کا غیر قانونی شکار نہ کیا جائے۔ لیکن زیادہ کامیابی اب تک اس لیے نہیں ہوئی کہ غیر قانونی شکار کو روکنے کی کوششیں کرنے والوں کی تعداد غیر قانونی شکار کرنے والوں کی تعداد کے مقابلے میں بہت کم ہے۔‘‘
پاکستان میں گزشتہ برسوں کے دوران اگر ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات بھی زیادہ واضح ہوئے ہیں تو ان تبدیلیوں کے خلاف عوامی اور سماجی شعور میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس بارے میں بلال قاضی نے بتایا، ’’عوامی شعور میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ پہلے اگر صرف دو تین لوگ ہی پروفیشنل وائلڈ لائف فوٹوگرافی کرتے تھے تو آج یہ تعداد قریب پانچ سو تک پہنچ چکی ہے۔ ایسے فوٹوگرافرز میں سے کئی ایسے ہیں، جن کے کام کو ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ اور نیشنل جیوگرافک تک نے بھی سراہا ہے۔ حکومتی کاوشیں اپنی جگہ لیکن بڑھتے ہوئے عوامی شعور میں ایسے افراد اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے سرگرم تنظیموں کابھی بڑا ہاتھ ہے۔ ‘‘
بلال قاضی نے برڈز آف پنجاب کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی ہے۔ ان کی اس کوشش کے محرکات کیا تھے، اس بارے میں انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پاکستانی بچوں کو عام طور پر چڑیا، کوے، بلبل اور طوطے کے علاوہ کچھ پتہ ہی نہیں ہوتا۔ اس کتاب کا مقصد یہ تھا کہ عام پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ آج کے بچوں اور کل کے فیصلہ ساز افراد کو بھی یہ بتایا جائے کہ پاکستان کے کس علاقے میں کون کون سی قسموں کے پرندے پائے جاتے ہیں۔ ان کے ہونے سے ماحول پر کیا اثر پڑتا ہے۔ اگر وہ کسی وجہ سے وہاں نہ ہوئے تو کیا فرق پڑے گا۔ ‘‘
جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے سرگرم اور مقامی کے علاوہ نقل مکانی کرنے والے پرندوں میں بہت زیادہ دلچسپی رکھنے والے اسلام اباد کے علاقے بنی گالہ کے نوجوان رہائشی علی خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’دنیا کے بہت سے ممالک میں جب موسمی پرندے ہجرت کر کے وہاں آتے ہیں، تو وہاں کے وائلڈ لائف کے محکمے کوشش کرتے ہیں کہ ان پرندوں کو وہاں قدرتی ماحول میسر ہو، اور وہ اس موسم کو اپنی بقا کے لیے افزائش نسل کی خاطر بھی استعمال کر سکیں۔ بھارت میں بھی ایسا ہوتا ہے کہ جب ایسے پرندوں کی آمد کا موسم آتا ہے، تو لوگ ان پرندوں کو دانہ ڈالتے ہیں، وہاں مقامی سطح پر میلوں تک کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں جیسے ہی یہ موسم شروع ہوتا ہے، لوگ شکار کی تیاریاں کرنا شروع کر دیتے ہیں۔‘‘
علی خان نے کہا کہ پاکستان میں مائیگریٹری پرندوں کی آمد میں کمی کی وجوہات میں موسمیاتی حالات کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کے رویے بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی باشندوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اس وقت پاکستان میں پرندوں کی بہت سی اقسام ناپید ہو جانے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ اس کے علاوہ قریب نصف درجن اقسام کے پرندوں کی نسلی بقا کو تو انتہائی شدید خطرات لاحق ہیں۔