پاکستان: یونیورسٹیاں تین گنا مگر ناخواندگی میں بھی اضافہ
2 مارچ 2018کسی بھی معاشرے میں خواندگی میں اضافہ اور ناخواندگی میں کمی یونیورسٹیوں کا کام نہیں ہوتا لیکن پاکستان میں پرائمری کی سطح پر تعلیمی شعبہ مجموعی طور پر اتنی غفلت کا شکار ہے کہ تعلیمی شعبے کے غیر سرکاری اداروں کے مطابق قریب بیس کروڑ کی ملکی آبادی میں سے سوا دو کروڑ بچے آج بھی اسکول نہیں جاتے۔ اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی ادارے یونیسکو کے مطابق یہ صورت حال اس لیے بہت پریشان کن اور فوری توجہ کی متقاضی ہے کہ پاکستان میں چودہ برس یا اس سے کم عمر کے بچوں کی تعداد ملکی آبادی کا قریب پینتیس فیصد بنتی ہے۔
پاکستان میں عام طور پر خواندہ شہری ان افراد کو قرار دیا جاتا ہے، جو کوئی خط وغیرہ لکھ پڑھ سکتے ہوں۔ حکومت پاکستان کے جاری کردہ سالانہ اقتصادی سروے کے مطابق گزشتہ برس ملک میں ناخواندہ افراد کی تعداد میں دو فیصد کا اضافہ ہوا۔ اس سے ایک سال قبل اس تعداد میں دو فیصد کمی ہوئی تھی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس سے بھی ایک برس پہلے، یعنی مالی سال دو ہزار چودہ پندرہ میں اس تعداد میں کوئی زیادہ تبدیلی آئی ہی نہیں تھی۔ اس طرح پاکستان میں گزشتہ قریب چار برسوں میں ناخواندگی کی شرح میں عملی طور پر کوئی فرق نہیں پڑا جبکہ یونیورسٹیوں کی تعداد مسلسل زیادہ ہوتی جا رہی ہے۔ تعلیمی ماہرین کے مطابق یہی حقائق اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان میں تعلیمی شعبہ غلط ترجیحات کی بھینٹ چڑھتا جا رہا ہے۔
ناخواندگی کا تناسب 58 فیصد
تعلیم کے فروغ کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری پاکستانی تنظیم کے مطابق ملک میں اس وقت بھی دس سال اور اس سے زیادہ عمر کی آبادی میں خواندگی کا تناسب 58 فیصد ہے۔ یہ شرح شہری علاقوں میں تو 74 فیصد بنتی ہے لیکن دیہی علاقوں میں یہ ابھی بھی صرف 49 فیصد ہے۔
پاکستان میں اس وقت کتنی یونیورسٹیاں کام کر رہی ہیں اور ماضی میں ان کی تعداد کتنی تھی، اس بارے میں دارالحکومت اسلام آباد میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی میڈیا ڈائریکٹر عائشہ اکرام نے ڈی ڈبلیو کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا، ''پندرہ سال پہلے پاکستان میں انسٹھ یونیورسٹیاں تھیں۔ اب یہ تعداد ایک سو اٹھاسی ہو چکی ہے۔ اس تعداد میں مزید اضافے کے لیے مختلف منصوبوں پر بھرپور کام جاری ہے اور سن دو ہزار پچیس تک اس تعداد میں مزید اضافہ یقینی ہے۔‘‘
ڈی ڈبلیو نے جب ان سے یہ پوچھا کہ پاکستان میں یونیورسٹی کی سطح پر تعلیم کے لیے کل کتنے مالی وسائل خرچ کیے جاتے ہیں اور کیا ساتھ ساتھ ہر پاکستانی بچے کے لیے پرائمری تعلیم کو یقینی بنانا بھی ضروری نہیں ہے، تو انہوں نے کہا، ''ہمارا بجٹ اس وقت تقریباﹰ ایک سو چھ بلین روپے ہے۔ ہمارا جو کام ہے، ہائر ایجوکشن کا، وہ ہم کر رہے ہیں۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ بنیادی تعلیم پر بھی زیادہ توجہ دینا چاہیے۔ اس لیے کہ بنیادوں کو تو ہر حال میں مضبوط ہی ہونا چاہیے۔ لیکن یہ حکومت کا کام ہے۔ ہمارا کام ہائر ایجوکیشن ہے، اس کو مزید بہتر بنانے کے لیے ہم اپنی ذمے داریاں انجام دے رہے ہیں۔‘‘
اس بارے میں پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل، فیڈرل ہائر ایجوکیشن کمیشن، نذیر حسین کہتے ہیں کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن یا ایچ ای سی پاکستان میں دو ہزار پچیس تک یونیورسٹیوں کی مجموعی تعداد تین سو تک پہنچا دینے اور ان میں طلبہ و طالبات کی رجسٹریشن کی شرح پندرہ فیصد تک لے جانے کے اہداف پر عمل پیرا ہے۔ نذیر حسین کے مطابق نوجوانوں کی اعلیٰ تعلیم تک رسائی کی راہ میں حائل مشکلات کے خاتمے کے لیے دو ہزار انیس تک ہر ضلع میں ایک ادارہ قائم کیا جائے گا۔ ان کے بقول ایچ ای سی اعلیٰ تعلیمی شعبے کی مضبوطی کا خواہاں ہے، جو تعلیم تک مساوی رسائی، جامعات کی لیڈر شپ اور گورننس کی بہتری اور بہتر تحقیق کے لیے کوشاں ہے۔
پاکستان کے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے مطابق اس ادارے کا قیام کے وقت ملک میں جامعات کی تعداد ساٹھ سے کم تھی، تحقیقی مجلے صرف آٹھ سو چھپتے تھے اور یونیورسٹیوں میں انرولمنٹ کی شرح صرف دو اعشاریہ چھ فیصد تھی۔ اب یونیورسٹیوں کی تعداد ایک سو اٹھاسی ہو چکی ہے، تحقیقی مجلوں کی سالانہ تعداد پندرہ ہزار بنتی ہے اور یونیورسٹیوں میں داخلے اور تعلیم کی شرح بھی نو فیصد ہو چکی ہے۔
کالجوں کو یونیورسٹی کا درجہ دینے کے اثرات
پاکستان میں سرکاری طور پر بہت سے گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ کالجوں کو یونیورسٹی کا درجہ دے دینے کا جو فیصلہ کیا گیا تھا، اس کے اسباب کیا تھے اور بہتر عملی نتائج کیا رہے؟ اس بارے میں پشاور یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور اسلامی نظریاتی کونسل کے موجودہ سربراہ ڈاکٹر قبلہ ایاز نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک خصوصی گفتگو میں کہا کہ وہ ذاتی طور پر اس طرح یونیورسٹیوں کی تعداد بڑھانے کے حق میں نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا، ''یہ تصور دیا گیا تھا سن دوہزار دو میں، فوجی حکمران پرویز مشرف نے ڈاکٹر عطاالرحمٰن کو چیئرمین بنا کر یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کو ہائر ایجوکیشن کمیشن میں بدل دیا تھا۔ اس وقت تصور یہ تھا کہ اعلیٰ تعلیم تک عام آدمی کی رسائی ہونی چاہیے۔ دور دراز علاقوں تک بھی اعلیٰ تعلیم پہنچائی جائے۔ پی ایچ ڈی کرنے والوں کی تعداد بڑھائی جائے اور علم کی بنیاد پر معیشت کی تشکل کی جائے۔ یوں دور دراز علاقوں تک میں یونیورسٹیاں بنائی گئیں، جن میں بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے بہت سے علاقے بھی شامل تھے۔ لیکن اب اس کے جو نتائج سامنے آ رہے ہیں، وہ درست نہیں ہیں۔ ڈگریاں تو دی جا رہی ہیں، لیکن اعلیٰ تعلیم کے ساتھ جو ذہنی تبدیلی آنا چاہیے تھی، وہ نہیں آ رہی۔ اس لیے کہ بات صرف ڈگری کی نہیں بلکہ تعلیم کے ساتھ جو دوسرے بہت سے کام بھی کیے جانا تھے، وہ نہیں کیے جا رہے۔‘‘
اس سوال کے جواب میں کہ آیا پاکستان میں پرائمری کی سطح پر ہر بچے کے لیے لازمی تعلیم کی منزل حاصل کر لی گئی ہے، ڈاکٹر قبلہ ایاز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بالکل نہیں۔ یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ پرائمری اور سیکنڈری کی سطح پر تعلیم کی طرف توجہ کم ہو گئی ہے۔ مشرف دور سے لے کر اب تک ایسا لگتا ہے کہ اس کام کو صرف پرائیویٹ اسکولوں، پرائیویٹ اداروں، چند تنظیموں یا کچھ شخصیات پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ ابتدائی اسکولوں میں تعلیم سے حکومت نے ہاتھ کھینچ لیا ہے، یہ بہت بڑی کوتاہی اور ایک مجرمانہ فعل ہے۔‘‘
پاکستان میں اگرچہ پچھلے کئی برسوں میں یونیورسٹیوں کی تعداد میں تین گنا سے زائد کا اضافہ ہو چکا ہے اور اس کے عملی نتائج بھی اگر درست نہیں، تو پھر ہونا کیا چاہیے؟ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر قبلہ ایاز نے ڈی دبلیو کو بتایا، ''جس طرح حکومت نے ہائر ایجوکیشن کے لیے کمیشن بنایا تھا، اسی طرح پرائمری یا بنیادی تعلیم کے لیے بھی ایک کمیشن بنایا جائے۔ ہنگامی بنیادوں پر یہ ذمے داری حکومت کو اپنے سر لینا ہو گی کہ پرائمری اسکول زیادہ سے زیادہ ہوں، پھر کالج اور وہ کام بھی کریں۔ اب تک تو حالت یہ ہے کہ اساتذہ ہیں مگر ان کی کوئی ٹریننگ نہیں ہوتی۔ بچوں کو رٹے لگوائے جاتے ہیں۔ نہ کوئی تجسس اور نہ کوئی تحقیق۔ اس طرح پاکستان باقی ماندہ دنیا کے ساتھ ہم قدم نہیں رہ سکے گا اور یہ آنے والی نسلوں پر بڑا ظلم ہو گا۔‘‘
نجی یونیورسٹیوں میں تعلیمی اخراجات
پاکستان میں اس وقت یونیورسٹی کی سطح پر تعلیم اور تعلیمی اخراجات کی صورت حال کیا ہے، خاص کر نئی نجی یونیورسٹیوں میں، اس بارے میں اسلام آباد کی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں سافٹ ویئر انجینئرنگ کے ایک افغان طالب علم واحد اللہ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ''یونیورسٹی فیس، ہاسٹل چارجز اور دیگر ادائیگیاں ملا کر ایک سمسٹر کا خرچ ایک لاکھ روپے سے زائد بنتا ہے۔ ڈگری لینے تک یہ قریب دس لاکھ روپے بنتے ہیں۔ اگر آپ کھانا بھی یونیورسٹی ہی سے کھائیں اور کچھ اضافی کورسز میں شرکت بھی کریں، تو ایک سمسٹر پر قریب دو لاکھ روپے لگ جاتے ہیں۔ غریب طلبہ کے لیے یونیورسٹی کی تعلیم مالی حوالے سے بہت مشکل ہے۔‘‘
اعلیٰ تعلیم کس قیمت پر؟ اس بارے میں اسلام آباد میں کامسیٹ یونیورسٹی کی کمپیوٹر سائنسز کی طالبہ لیلیٰ خالد نے بتایا کہ چار سالہ تعلیمی پروگرام کی صرف فیس ہی چھ سے آٹھ لاکھ روپے تک بنتی ہے۔ لیب فیس اور دیگر اخراجات ان کے علاوہ ہوتے ہیں۔ زیادہ معروف دوسری نجی یونیورسٹیوں میں تعلیم کے اخراجات پورا کرنے کا تو کوئی غریب طالب علم سوچ بھی نہیں سکتا۔ کئی طلبا و طالبات تو اسی لیے ویب ڈیزائننگ یا کوئی پارٹ ٹائم ملازمت کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔‘‘
یونیورسل پرائمری ایجوکیشن کی منزل کب تک؟
پاکستان میں یونیورسل پرائمری ایجوکیشن کی طے شدہ منزل کب تک عملی طور پر حاصل کی جا سکے گی، اس بارے میں ایک سوال کے جواب میں معروف ماہر تعلیم اور تجزیہ نگار ناظر محمود نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پچھلے سال خواندگی کی شرح کم ہوئی اور ناخواندگی میں دو فیصد اضافہ ہوا۔ ہمارے ہاں تو خواندگی بڑھنے کے بجائے کم ہو رہی ہے۔ پچھلے دو برسوں کو دیکھا جائے، تو یونیورسل پرائمری ایجوکیشن کا مکمل ہدف تو اگلے پچیس برسوں میں بھی حاصل ہوتا نظر نہیں آتا۔‘‘ ناظر محمود نے اس بات پر گہری تشویش کا اظہار کیا کہ پاکستان میں پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں کی مجموعی تعداد ڈھائی لاکھ ہے۔ لیکن ڈھائی لاکھ میں سیکنڈری اسکولوں کی تعداد صرف پچاس ہزار ہے۔ ''تو تکلیف دہ اندازہ تو یہیں سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر سو بچے پرائمری اسکول جاتے ہیں، تو ان میں سے بمشکل پچاس بچے ہائی اسکول پہنچ پاتے ہیں۔‘‘
ناظر محمود نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پنجاب میں صورتحال کچھ بہتر ہوئی ہے کیونکہ پنجاب کے تعلیمی ماڈل میں کرپشن کم ہوئی ہے اور مانیٹرنگ سسٹم بہتر ہوا ہے۔ لاہور میں ایک سنٹرل مانیٹرنگ سنٹر بنایا گیا ہے، جہاں آن لائن ٹیچرز کی حاضری رجسٹر ہوتی ہے تاکہ پتہ چلے کہ اساتذہ کلاسوں میں گئے یا نہیں۔ سندھ اور بلوچستان میں ایسا کوئی سسٹم نہیں ہے اور وہاں صورتحال زیادہ خراب ہے۔ بلوچستان میں تو سکیورٹی اور کرپشن کے علاوہ بڑا مسئلہ اسکولوں میں بنیادی سہولیات کا ناکافی ہونا بھی ہے جبکہ سندھ میں سب سے بڑا مسئلہ کرپشن اور گھوسٹ اسکولوں کا ہے۔ ایسے اسکول جو صرف سرکاری ریکارڈ میں موجود ہوتے ہیں، عملی طور پر کہیں نہیں۔‘‘