1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی انتخابات: بلوچستان میں ووٹنگ توقعات سے بڑھ کر

11 مئی 2013

شورش زدہ صوبہ بلوچستان میں بھی سکیورٹی خدشات اور بلوچ کالعدم مسلح گرپوں کی دھمکیوں کے باوجود قومی اور صوبائی اسمبلی کی تمام متعلقہ نشستوں پر پولنگ اپنے مقررہ وقت پر شروع ہو ئی اور بلا تعطل شام پانچ بجے تک جاری رہی۔

https://p.dw.com/p/18W9a
تصویر: DW

دوسری جانب اس دوران کوئٹہ ، مستونگ، تربت بارکھان، نوشکی چمن اور دیگر علاقوں میں پولنگ اسٹیشوں اور سیاسی رہنماوں کے قافلوں پر بموں اور راکٹوں سے حملوں اور دیگر پر تشدد واقعات کے نتیجے میں آٹھ افراد جاں بہ حق جب کہ بیس سے ذائد افراد زخمی ہو ئے جن میں سیاسی جماعتوں کے کارکن بھی شامل ہیں۔

بلوچستان میں قومی اسمبلی کی 14 اور صوبائی اسمبلی کی 51نشستوں پر پولنگ یوں تو صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سمیت دیگر اضلاع میں غیر متوقع طور پر اپنے مقررہ وقت پر صبح اٹھ بجے ہی شروع ہوئی تاہم بعض دورا افتادہ اضلاع خاران، واشک پنجگور، نوشکی، دالبندین اور دیگر کئی علاقوں میں پولنگ کے عملےاور انتخابی سامان کے پولنگ اسٹیشننوں پر تاخیر سے پہنچنے کے باعث پولنگ کا آغاز نو بجے شروع ہوا جو کہ بعد میں بلا تعطل شام پانچ بجے تک جاری رہا۔

بلوچستان میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے مجموعی طور پر1832 امیدواروں نے انتخاب میں حصہ لیا جن میں صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لئے 1418 جب کہ قومی اسمبلی کے لئے 414 امیدوار شامل تھے۔

Wahlen in Pakistan 2013
بلوچستان کے متعدد مقامات پر زبردست ٹرن آؤٹ سامنے آیا ہےتصویر: DW

صوبے بھر میں قائم کئے گئے 3609 پولنگ اسٹیشنوں اور 8257 پولنگ اسٹیشنوں میں 28450 افراد پر مشتمل عملے نے حصہ لیا جن میں 3679 پریزائڈنگ افسران، 16504 اسٹنٹ پریزائڈنگ افسران اور 8207 پولنگ افسران شامل تھے۔

سکیورٹی کے جامع انتظامات کی وجہ سے اگرچہ مجموعی طور پر اکثر علاقوں میں پولنگ پر امن رہی تاہم سرحدی شہر چمن میں دو مسلح گروپوں کے تصادم کے نتیجے میں پانچ افراد جاں بہ حق اور چار افراد زخمی جب کہ کوئٹہ، کچلاک، سوراب، مستونگ، تربت، بارکھان، نوشکی اور پنجگور کے علاقوں میں پولنگ اسٹیشنوں اور سیاسی رہنماؤں کے دفاتر اور قافلوں پر شرپسندوں کے بموں اور راکٹوں سے حملوں کے نتیجے میں تین دیگر افراد جاں بہ حق جب کہ دو پولیس اہلکارو ں سمیت 16 افراد زخمی ہوئے جنہیں طبی امداد کے لئے ہسپتالوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔

دہشت گردانہ حملوں کے باعث بعض پولنگ اسٹیشنوں کی عمارتوں کو بھی جزوی طور پر نقصان پہنچا تاہم امن عامہ کی صورت حال میں مذید کوئی خلل نہیں پڑا۔

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بھی کوئٹے میں اپنا ووٹ ڈالا۔ اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ووٹ کے استعمال سے ہی ملک میں قانون کی بالادستی قائم ہو سکتی ہے اور یہ امر خوش آئند ہے کہ عوام نے تبدیلی کے سفر میں جامع کرادر ادا کیا۔ ان کا مذید کہنا تھا، ’’گزشتہ پانچ چھ سالوں کے بعد تبدیلی آئی ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ملک میں آئین کی بالادستی قائم ہے اور آئین کی بالادستی کی وجہ سے ہی آج انتخابات منعقد ہوئے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت خوش آئند بات ہے کہ ملک میں ’گوڈ گورننس‘ ہے۔ ’’جو بھی حکومت آئے وہ ملک اور عوام کی ترقی کے لئے کام کرے۔‘‘

بلوچستان میں مجموعی طور کل رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 33 لاکھ 36 ہزار 359 ہے۔ پولنگ اسٹیشنوں کے باہر مردوں اور خواتین ووٹروں کی بڑی تعداد دیکھنے میں آئی تاہم بعض علاقوں میں پولنگ کے دوران قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی بھی شکایات سامنے آئیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی رہنماء قاسم خان سوری کا کہنا ہے کہ صوبے کے بعض پولنگ اسٹیشنوں میں ان کے مخالف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے ان کے ووٹروں کو سرعام حراساں کیا ہے لیکن الیکشن کمیشن نے اس حوالے سے کوئی نوٹس نہیں لیا۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران ان کا مذید کہنا تھا، ’’کچ ملازئی ناصران میں خواتین کا پولنگ بوتھ باقاعدہ کسی دوسرے علاقے میں منتقل کر دیا گیا تھا اور پریزائڈنگ افسران نے ہمیں بتایا کہ لیویز اہلکار انہں وہاں لے گئے تھے۔ ہم وہاں گئے تو ایک قوم پرست جماعت کے کارکن ٹھپے لگا رہے تھے۔ ہم نے انہیں پکڑا ہے لیکن اس شکایت کا کوئی ازالہ نہیں ہوا۔‘‘

خیال رہے کہ صوبے میں امن کی صورت حال برقرار رکھنے کے لیے صوبے بھر میں سات ہزار فوجی جب کہ مجموعی طورپر ایف سی، پولیس، لیویز، اوربلوچستان کانسٹبلری کےپچپن ہزار اہلکار تعینات کئے گئے تھے۔ اعلی حکام کوئٹے میں قائم کئے گئے مرکزی کنٹرول روم جب کہ ضلعی افسران ضلعی ہیڈ کوارٹرز میں قائم کیے گئے کنٹرول رومز میں سکیورٹی انتظامات کا جائزہ لیتے رہے اور انتخابی عمل کی دن بھر فضائی نگرانی بھی کی گئی۔

رپورٹ: عبدالغنی کاکڑ، کوئٹہ

ادارت: شامل شمس