پاکستانی اور افغانی وزرائے خارجہ کے مابین ’لفظی جنگ‘
15 دسمبر 2018پاکستان اور اس کے ہمسایہ ملک افغانستان نے ایک مرتبہ پھر ایک دوسرے پر الزامات عائد کیے ہیں۔ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سہ ملکی مذاکرات میں شرکت کے لیے ہفتے کو ایک روزہ دورے پر افغانستان پہنچے تھے۔ چینی وزیر خارجہ کے ہمراہ علاقائی سطح پر قیام امن کی خاطر اپنی نوعیت کی یہ دوسری کانفرنس تھی۔
افغان وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی کا اپنے پاکستانی ہم منصب سے مطالبہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ امن کے حصول کے لیے اپنی کوششوں میں اضافہ کرے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’ ہم امن کے لیے پاکستان سے نتیجے پر مبنی اقدامات اور مصالحتی عمل کے لیے اس کی مخلص حمایت چاہتے ہیں۔‘‘
اس کے جواب میں پاکستانی وزیر خارجہ نے علاقائی کشیدگی کا ذمے دار کابل حکومت کو ٹھہرایا۔ ان کا کہنا تھا، ’’اگر افغانستان امن چاہتا ہے تو اسے پاکستان پر انگلیاں اٹھانا بند کرنا ہو گا۔‘‘
افغانستان اور امریکا دونوں ہی پاکستان پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ طالبان جنگجوؤں کو مدد فراہم کرتا ہے اور اسی باعث وہ افغانستان میں مقامی اور غیر ملکی اہداف کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ تاہم پاکستانی حکومت ان الزامات کو یکسر مسترد کرتی ہے۔
قبل ازیں شاہ محمود قریشی کا کابل پہنچنے کے بعد کہنا تھا کہ ’بلیم گیم‘ کو ختم کرنے کا وقت آ پہنچا ہے اور ’مشترکہ مستقبل‘ کی بات ہونی چاہیے۔ چینی وزیر خارجہ وانگ ژی کا کہنا تھا کہ ان کا ملک افغانستان میں قیام امن کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان پُل کا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔
دوسری جانب جمعے کے دن پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے تصدیق کی تھی کہ اسلام آباد حکومت امریکا اور افغان طالبان کے مابین امن مذاکرات میں تعاون و مدد فراہم کر رہی ہے۔ پاکستان کے مقامی میڈیا کے مطابق امن مذاکرات کا یہ نیا دور سترہ دسمبر سے شروع ہو گا۔ رواں ماہ ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستانی وزیراعظم عمران خان سے افغان طالبان کے ساتھ امن مذاکرات میں مدد فراہم کرنے کی اپیل کی تھی۔
ا ا / ع ت (ڈی پی اے)