’پاکستانی ایئر فورس کو نئے جنگی طیاروں کی ضرورت ہے‘
7 اپریل 2016پاکستان ایئر فورس کے سیکنڈ اِن کمانڈ ایئر مارشل محمد اشفاق آرائیں نے فضائی فوج کی ضروریات کے حوالے سے نیوز ایجنسی روئٹرز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ معلوم نہیں کہ انسداد دہشت گردی کا آپریشن کب تک جاری رہتا ہے اور اِس آپریشن میں کمال مہارت کے ساتھ اہداف کو نشانے لگانے کے لیے جدید جنگی طیاروں کی ضرورت ہے۔ آرائیں نے مزید کہا کہ اب تک کے آپریشن میں ایف سولہ طیاروں اور اُس کے پائلٹوں نے سارا بوجھ اٹھایا ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ اگلے برسوں میں پاکستانی ایئرفورس کو درجنوں لڑاکا جنگی طیاروں کی ضرورت ہو گی۔ اب تک پاکستان کی ایئر فورس کا زیادہ تر انحصار ستر کے قریب امریکی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن کے ایف سولہ جنگی طیاروں پر رہا ہے۔ پاکستان کے جنگی طیاروں میں چالیس سالہ پرانے فرانسیسی ساختہ میراج جیٹ بھی شامل ہیں۔ ان کے علاوہ چین کے تیار کردہ ایف سیون بھی ہیں اور یہ پچیس سالہ پرانے ہیں۔ ان دونوں یعنی میراج اور ایف سیون کو پاکستان ایئر فورس اگلے چند برسوں کے درمیان عملی سروس سے فارغ کرنے کی منصوبہ بندی کیے ہوئے ہے۔
ایئر مارشل اشفاق آرائیں نے فرانس کے رافیل اور روس کے ایس یو 35 کو خریدنے کو خارج از امکان قرار دیا ہے کیونکہ یہ انتہائی مہنگے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان مختلف ٹیکنالوجی کے ادغام کے حق میں نہیں ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سردست آپریشن میں شامل جنگی طیارے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور اگر اگلے برسوں میں بوجھ تقسیم کرنا پڑا تو جے ایف سیونٹین تھنڈر کو آگے لایا جائے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ حال ہی میں فرانس کے دورے میں کسی حد تک تھالیز کمپنی کے ڈاموکلیز پوڈ کی تیسری جنریشن پر غور کیا گیا۔ اس مناسبت سے ایئر مارشل آرائیں کا کہنا تھا کہ بہتر آپشن کو بہرحال مدِ نظر رکھا جائے گا اور جنگوں میں ڈاموکلیز پوڈ کا نظام بہتر ثابت ہوا ہے اور اگر یہ بات آگے نہیں بڑھتی ہے تو پھر اِس کے متبادل پر یقینی طور پر غور کیا جائے گا۔ ان کے مطابق پاکستان کو سن 2030 سے آگے کی ضروریات پر توجہ دینی ہے اور اُسی تناظر میں جنگی طیاروں کو خریدنے کا عمل زیر غور ہے۔
پاکستان بظاہر امریکا کا اتحادی ہے اور اسے ایران و افغانستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ کے علاقوں میں جنگجووں کی مسلح کارروائیوں اور بلوچ علیحدگی پسندوں کے مزاحمتی عمل کا بھی سامنا ہے۔ دوسری جانب پاکستان کی بھارت سے ملحق سرحد پر بھی فوج تعینات ہے اور خاص طور پر متنازعہ علاقے کشمیر کی کنٹرول لائن پر بھی مسائل ہیں۔ پاکستانی فوج نے سن 2014 میں شمالی و جنوبی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف عسکری آپریشن ضرب عضب شروع کر رکھا ہے۔