پاکستانی جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں اضافہ باعث تشویش کیوں؟
28 اگست 2015دو امریکی تھنک ٹینکس ’سٹمسن سینٹر‘ اور ’کارنگی انڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس‘ کی طرف سے جاری کردہ ایک مشترکہ رپورٹ کے مطابق جس طرح پاکستان اپنے جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں اضافہ کر رہا ہے، اس کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ ایک عشرے بعد پاکستان جوہری ہتھیاروں کے تیسرے بڑے ذخائر کا حامل ملک بن سکتا ہے۔ ستائیس اگست کو جاری کی گئی اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کے پاس فی الحال موجود جوہری ہتھیار نہ صرف ہمسایہ ملک بھارت کے مقابلے میں دوگنا زیادہ ہو سکتے ہیں بلکہ وہ اس دوڑ میں برطانیہ، فرانس اور چین سے بھی آگے ہو سکتا ہے۔
’نارمل نیوکلیئر پاکستان‘ نامی یہ رپورٹ عوامی سطح پر دستیاب سٹیلائیٹ تصاویر اور ان کے جامع تجزیے کے بعد مرتب کی گئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ عشرے کے دوران پاکستان نے چار ایسے ری ایکٹر تعمیر کیے ہیں، جہاں جوہری ہتھیاروں کے لیے پلوٹونیم تیار کی جاتی ہے۔ تجزیات کے مطابق یہ ری ایکٹرز سالانہ بنیادوں پر پچاس کلو گرام پلوٹونیم تیار کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں جبکہ اس کے علاوہ پاکستان کے پاس اعلیٰ افزودہ یورنیم کی تیاری کی صلاحیت بھی موجود ہے۔
اس رپورٹ کے مصنف ٹوبی ڈیلٹن نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’اگر پاکستان ان تنصیبات میں تیار کیا جانے والا تمام مواد جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں استعمال میں لائے تو ہمارا تجزیہ کہتا ہے کہ وہ سالانہ بیس یا اس سے زائد جوہری ہتھیار تیار کر سکتا ہے۔ جارج میسن یونیورسٹی سے منسلک ایسوسی ایٹ پروفیسر گیگوری کوبلنٹس بھی کہتے ہیں کہ پاکستان نے اپنی اہلیت بڑھائی ہے اور وہ سالانہ چودہ سے ستائیس جوہری ہتھیار بنانے کے قابل ہو چکا ہے۔
متعدد بین الاقوامی مبصرین اس بات کے قائل ہیں کہ پاکستان کا جوہری پروگرام دراصل بھارت کی طرف سے لاحق ممکنہ خطرات کے تناظر میں ترتیب دیا گیا۔ اسلام آباد حکومت کا بھی کہنا ہے کہ اس کے جوہری ہتھیار حریف ملک بھارت کو کسی عسکری مہم سے باز رکھنے کے لیے بنائے جا رہے ہیں۔ کوبلنٹس کے مطابق جوہری طاقت کی حامل پاکستانی فوج اپنی حکمت عملی سے بھارت کے ساتھ روایتی جنگ کا خطرہ بھی ٹال دینا چاہتی ہے۔
پاکستانی شہر کراچی کے ایک طالب علم عبدالباسط نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’ایٹم بم ہمارے محافظ ہیں۔ یہ ہماری خودمختاری کی ضمانت ہیں۔ جب تک ہمارے پاس یہ بم ہیں کوئی بھی پاکستان کو میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت، امریکا اور دیگر مغربی ممالک ہمارے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔‘‘ اگرچہ پاکستان میں ایٹمی ٹیکنالوجی کی حفاظت کے لیے سخت قوانین بھی متعارف کرائے جا چکے ہیں لیکن پھر بھی ایسے خدشات بہرحال موجود ہیں کہ ایٹم بم یا دیگر خطرناک جوہری مواد چوری ہو سکتا ہے یا دہشت گرد گروہوں کو منتقل کیا جا سکتا ہے۔
ٹوبی ڈیلٹن کے مطابق، ’’ابھی تک ایسے شواہد نہیں ہیں کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے غیر محفوظ ہونے کے حوالے سے تشویش ظاہر کی جائے۔ لیکن پاکستان کی سلامتی کی صورتحال اب ریاستی اداروں کے لیے بھی ایک چیلنج بنتی جا رہی ہے۔ جیسے جیسے ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد میں اضافہ ہو گا، تو منطقی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ان ہتھیاروں کے غیر محفوظ ہاتھوں میں جانے کے امکانات بھی زیادہ ہوتے جائیں گے۔‘‘
اسلام آباد میں مقیم دفاعی تجزیہ نگار ماریہ سلطان البتہ اصرار کرتی ہیں کہ متعلقہ حکام ملکی ایٹمی اثاثوں پر مکمل کنٹرول رکھتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ماریہ نے کہا، ’’پاکستان کے پاس اہلیت ہے کہ وہ اپنے ایٹمی ہتھیاروں اور نیوکلیئر ٹیکنالوجی کی مؤثر مایٹرنگ کر سکے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ اس تناظر میں ایک انتہائی نفیس اور جامع نظام وضع کیا گیا ہے۔ سیاسی اور دفاع تجزیہ نگار زاہد حسین نے بھی ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا کہ پاکستانی ایٹمی ہتھیار اور ٹیکنالوجی محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ زاہد حسین کے بقول، ’’مغربی ممالک کے خدشات اور تشویش غیر ضروری ہے۔‘‘
دوسری طرف لندن میں مقیم پاکستانی صحافی اور محقق فاروق سلہریا کے مطابق جوہری پروگرامز کبھی بھی مکمل طور پر محفوظ نہیں ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف اگر مغربی میڈیا میں پاکستانی ایٹم بموں کا کچھ زیادہ ہی چرچا ہے تو دوسری طرف ان ہتھیاروں کی حفاظت کے حوالے سے تشویش بھی غلط نہیں ہے۔ سلہریا نے قیاس آرائی کرتے ہوئے مزید کہا، ’’پاکستانی فوج میں طالبانائزیشن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اگر فوج کے اندر ہی موجود طالبانی عناصر نے جوہری اثاثوں پر کنٹرول حاصل کر لیا تو پھر۔‘‘