پاکستانی جیلیں کورونا وائرس کی زد میں
17 مئی 2020پاکستان میں قیدیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک ادارے جسٹس پراجیکٹ پاکستان کی جانب سے جمع کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق اس وقت پاکستان کی مختلف جیلوں میں کم از کم 141 قیدی کورونا وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔ ان میں سے سب سے زیادہ یعنی 100 قیدی پنجاب کی جیلوں میں ہیں جب کہ 40 سندھ کی جیلوں اور ایک بلوچستان کی کوئٹہ جیل میں رپورٹ ہوا ہے۔ اس ادارے کے ترجمان کے مطابق اس ضمن میں تشویش ناک امر یہ ہے کہ جیلوں میں کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز کے باوجودتشخیصی ٹیسٹ بروقت اور مطلوبہ تعداد میں نہیں ہو رہے ہیں۔
’’اب تک حکومت کی جانب سے جیلوں میں محض 2000 کے لگ بھگ ٹیسٹ کرنے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں جن میں سے 400 سندھ جبکہ 1680 پنجاب کی جیلوں میں کیے گئے ہیں، جو کل قیدیوں کے 3 فیصد سے بھی کم ہے۔‘‘
کورونا واقعی میں ہے بھی، یا نہیں؟
کال کوٹھڑی میں قید نوجوان پاکستانی اسکالر جسے دنیا نے بھُلا دیا
اس وقت پاکستانی جیلوں میں گنجائش سے کہیں زیادہ قیدی موجود ہیں۔ وفاقی محتسب کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے اعدادوشمار کے مطابق پاکستانی جیلوں میں اس وقت 63147 قیدیوں کی گنجائش موجود ہے ، جبکہ یہاں قیدیوں کی کل تعداد 73242 ہے، جن میں 600 ذہنی طور پر بیمار قیدی ہیں جب کہ 2400 ایسے قیدی جو مختلف متعدی امراض میں مبتلا ہیں قید ہیں۔ اس کے علاوہ 2100 ایسے قیدی ہیں جو سنگین جسمانی عارضوں کا شکار ہیں اور 1500 ایسے قیدی شامل ہیں جو 60 سال یا اس سے زائد عمر کے ہیں۔ رواں سال مارچ کے مہینے میں مکمل کیے جانے والے ایک جائزے کے مطابق پاکستان کی جیلوں میں روزانہ آنے والے قیدیوں کی تعداد چار سو سڑسٹھ کے قریب ہے۔
پنجاب میں محکمہ صحت کی طرف سے جاری کی جانے والی ایک تازہ ترین رپورٹ میں صوبے کی جیلوں میں قید افراد میں کورونا کے مریضوں کی تعداد چھیاسی بتائی گئی ہے، اس رپورٹ کے مطابق صرف لاہور کی جیلوں میں کورونا کے مریضوں کی تعداد انسٹھ ہے جبکہ ڈیرہ غازی خان جیل میں نو، گوجرانوالہ میں سات، جہلم میں تین، بھکر جیل میں دو جبکہ کورونا کے باقی مریض فیصل آباد، حافظ آباد اورقصور کی جیلوں میں بتائے جا رہے ہیں،
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے حال ہی میں پاکستان سے کہا ہے کہ وہ جیلوں میں قید قیدیوں کے علاج اور تشخیص کے عمل میں شفافیت کو یقینی بنائے۔ پاکستان میں یہ تاثر عام ہے کہ جیلوں میں یا تو ٹیسٹوں کا عمل روک دیا گیا ہے یا پھر مطلوبہ تعداد میں قیدیوں کے ٹیسٹ نہیں کیے جا رہے ہیں۔ پاکستانی حکام کی طرف سے اس ضمن میں معلومات سامنے نہیں لائی جا رہیں۔ پاکستان میں سول سوسائٹی نیٹ ورک کے صدر عبداللہ ملک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ قیدی بھی انسان ہیں اور ان کو سزا ملنے کے باوجود ان سے علاج معالجے کا حق نہیں چھینا جا سکتا۔
ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں جسٹس پراجیکٹ پاکستان کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سارا بلال نے بتایا کہ پاکستان کی جیلوں میں گنجائش سے کہیں زیادہ تعداد میں موجود قیدی اپنے کمزور مدافعتی نظام کی وجہ سے کورونا کے آسان شکار ثابت ہو سکتے ہیں۔ ان کے مطابق گنجائش سے زائد قیدیوں، صحت و صفائی کی ناقص اور ناکافی سہولیات اور بڑی تعداد میں قیدیوں کی آمدوخروج کی وجہ سے یہاں وائرس پھیلنے کا خطرہ عام آبادی سے بھی کئی گنا زیادہ ہے۔ اگرچہ حکومت نے بعض اقدامات کیے ہیں تاہم ابھی تک کافی ٹیسٹ یا گنجائش سے زائد قیدیوں کی تعداد میں کمی کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے ۔ ان کے خیال میں جیلوں میں سماجی دوری اور حفظان صحت کے اصولوں پر عملدرآمد ناممکن ہو جاتا ہے۔
ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں انہوں نے کہا، ’’ہمارے خیال میں حکومت کو ایسے قیدیوں کی نشاندہی کرنی ہو گی جنہیں یہ وائرس لاحق ہونے کا خطرہ ہے، اور بڑے پیمانے پر ٹیسٹ کرنے ہوں گے۔ ہماری اطلاعات کے مطابق ابھی تک صرف علامات سامنے آنے پر ہی قیدیوں کے ٹیسٹ کیے جاتے ہیں، لیکن ڈاکٹر یاسمین راشد نے حال ہی میں بتایا ہے کہ پنجاب میں 90 فیصد ایسے کیسز سامنے آئے ہیں جن میں کورونا کی علامات موجود نہیں تھیں۔ اسی طرح امریکا کی چار ریاستوں میں بڑے پیمانے پر قیدیوں کے ٹیسٹ کرنے کے بعد جو کیسز سامنے آئے ان کا 96 فیصد ایسے قیدیوں پر مشتمل تھا جن میں کورونا کی علامات ٹیسٹ کے وقت موجود نہیں تھیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ صرف علامات سامنے آنے پر ٹیسٹ کرنا درست نہیں بلکہ پہلے سے ذہنی اور جسمانی بیمار قیدیوں، پچپن سال سے زائد عمر کے قیدیوں اور بہت زیادہ گنجان بیرکس اور جیلوں میں قید قیدیوں کی نشاندہی کر کے ان کے ٹیسٹ کرنے چاہیئں تاکہ اس مرض کے پھیلاو کا صحیح انداز کیا جا سکا۔‘‘
جسٹس پراجیکٹ پاکستان کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سارا بلال کے نزدیک ایک اور اہم معاملہ نئے قیدیوں کی جیل آمد کا ہے۔ گزشتہ دنوں سامنے آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق پنجاب میں سولہ مارچ سے اب تک 23 ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سربراہ کی جانب سے سپریم کورٹ کو پیش کیے گئے اعدادوشمار کے کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ہر روز اوسطاً 467 قیدی جیلوں میں لائے جاتے ہیں۔ اس بڑی تعداد میں قیدیوں کو مانیٹر کرنا بے حد مشکل ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ نئے قیدیوں کی آمد کے مسئلے پر مناسب حفاظتی اقدامات کیے جائیں۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ جیلوں میں قید ایسے افراد کو رہا کر دیا جانا چاہیئے جن کی عمریں پچپن سال سے زائد ہیں اور وہ معمولی نوعیت کے ایسے مقدمات میں قید ہیں جو ابھی زیر سماعت ہیں، اسی طرح ان کے بقول ایسے قیدی جو اپنی سزا کی مدت پوری کر چکے ہیں لیکن وہ جرمانے کی رقم نہ ہونے کی وجہ سے قید کاٹ رہے ہیں یا پھر ایسے قیدی جنہیں آزادی اظہار یا اجتماع کی آزادی کا حق استعمال کرنے کی وجہ سے پابند سلاسل کر دیا گیا ہے انہیں بھی قانونی طریقہ کار اختیار کرکے رہا کر دینا چاہیے۔ اسی طرح جیل میں قید مریض خواتین یا کم سن وہ بچے جو اپنی سزا کا تین چوتھائی حصہ مکمل کر چکے ہوں ان کے کیسز پر بھی ہمدردانہ غور کی ضرورت ہے۔
پنجاب کے صوبائی وزیر برائے جیل خانہ جات اور آئی جی جیل سے مسلسل کوششوں کو باوجود رابطہ نہیں ہو سکا اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر پنجاب حکومت کے ایک افسر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پنجاب حکومت 'پنجاب جیل ایکٹ دو ہزار بیس‘‘ کے نام سے جیلوں کی اصلاحات کے لیے ایک نیا قانون لے کر آ رہی ہے جس سے جیلوں کی صورتحال کو بہتر بنانے میں کافی مدد مل سکے گی۔