پاکستانی خلائی پروگرام اور قومی تقاضے
16 اکتوبر 2013پاکستان کا شمار تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے تاہم خلائی پروگرام 2040 کی مدد سے جنوبی ایشیا کی یہ ایٹمی طاقت سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں اپنا لوہا منوانے کی جستجو میں ہے۔ اگرچہ سال 2003 سے خلائی سیٹلائٹ پاک سیٹ آئی ای خلائی تحقیق کے ملکی ادارے سپارکو کے زیر انتظام ہے مگر نہ تو سپارکو کو یہ سیٹلائٹ خلا میں چھوڑنے کا اعزاز حاصل ہے اور نہ ہی یہ سپارکو کی ملکیت رہا ہے۔ یہ سیٹلائٹ امریکی طیارہ ساز ادارے بوئنگ کی ملکیت تھا اور پاکستان نے اسے پٹے پر حاصل کر رکھا ہے۔
گیارہ اگست 2011 سے سپارکو نے قدرے جدید سیٹلائٹ پاک سیٹ آئی آر خلاء میں چھوڑ رکھا ہے جس میں گرچہ بڑی حد تک چین کا تعاون حاصل رہا تاہم پھر بھی کسی حد تک یہ سپارکو کے سائنس دانوں کی تخلیق تھا اور پاکستان کا اثاثہ ہے۔ اب سال 2011 سے پاکستانی خلائی ادارے کا Space Programme 2040 کے تحت سال 2040ء تک مجموعی طور پر گیارہ سیٹلائٹ خلاء میں بھیجنے کا ارادہ ہے۔ ان میں سے پانچ زمین کے اوپری مدار Geosynchronous Orbit جبکہ چھ زمین کے نچلے خلائی مدار Low Earth Orbit میں بھیجے جائیں گے۔ شیڈول کے مطابق اگلے برس دوسرا سیٹلائٹ خلاء میں روانہ کیا جائے گا۔ پاکستان اور چین کے مابین یہ طے پایا ہے کہ بیجنگ حکومت پاکستانی خلائی سائنس دانوں کو تربیت فراہم کرتی رہے گی۔ پاکستانی انجینئرز سیٹلائٹ سازی میں مکمل مہارت حاصل کرنے کی کوشش میں چین کے تربیتی دورے بھی کر رہے ہیں۔
پاکستان میں یہ بحث بھی ہوتی رہی ہے کہ مشکل اقتصادی، سیاسی اور عسکری حالات میں گھرے رہنے کے باوجود آخر پاکستان کو اتنا مہنگا خلائی پروگرام شروع کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ یہی سوال ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک گفتگو میں جب پاکستان میں خلائی سائنس کے بڑے تعلیمی ادارے Institute of Space & Planetary Astrophysics کے چیئرمین ڈاکٹر جاوید اقبال سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا، ”اب سے پہلے ہم خلائی تحقیق کے لیے ناسا کا سیٹلائٹ استعمال کرتے تھے اور اس کا کرایہ ادا کیا جاتا تھا، لیکن جب اپنی ٹیکنالوجی ہو گی تو ہم اس صنعت میں خود داخل ہو جائیں گے اور سپیس ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے بائی پروڈکٹس بنائی جا سکتی ہیں۔ اس طرح معیشت بہتر ہو گی اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ ابھی ہم بینڈ وڈتھ کے لیے دبئی وغیرہ سے رجوع کرتے ہیں، پھر ہماری اپنی بینڈ وڈتھ ہو گی تو ہمارا کمیونیکیشن سسٹم ترقی کرے گا اور روزگار کے بہت سے مواقع پیدا ہوں گے۔‘‘
ISPA نے حال ہی میں کائنات کی کھوج کے عنوان سے ایک قومی مذاکرے کا انعقاد بھی کیا تھا، جس میں ملک بھر سے نامور سائنس دانوں نے شرکت کی اور خلائی سائنس سے متعلقہ موضوعات پر مکالے پیش کیے گئے۔ جدید دنیا کے تقاضوں کے مدنظر پاکستان میں بالخصوص Geographic Information System کی اہمیت اور ضرورت محسوس کی جا رہی ہے جس کی مدد سے ملک کے چپے چپے کے نقشے ہر شہری کو ایک چھوٹی موبائل فون نما سکرین پر دستیاب ہوسکیں گے۔ یہ بھی خلائی سائنس کی ترقی سے ہی ممکن ہے، جو صارفین کو بہت سی بڑی پریشانیوں سے چھٹکارا دلا سکتا ہے۔
خلائی سائنس کو محض عسکری مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے حوالے سے ڈاکٹر جاوید اقبال خبردار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کے دور رس منفی اثرات مرتب ہوں گے، ’’امریکا اور روس دونوں خلائی سائنس میں بہت آگے ہیں۔ امریکا نے اسے سول پروگراموں اور اپنی معیشت کی بہتری کے لیے استعمال کیا مگر روس نے اسے محض عسکری مقاصد کے لیے استعمال کیا تو آپ نے دیکھا کہ روس کی معیشت خراب ہوتی گئی اور امریکی معیشت بہتر رہی۔ تو ہم بھی ظاہر ہے کہ دفاعی مقاصد کے لیے تو استعمال کریں گے ہی، لیکن ضروری یہ ہے کہ اسے سول مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جائے۔ اس کے بہت فائدے ہوں گے۔‘‘
خلائی تحقیق کے پاکستانی ادارے سپارکو کے مطابق اسپیس پروگرام 2040 کے مقاصد میں سیٹلائٹ سازی میں مہارت کا حصول، خلائی طب کے شعبے میں مہارت اور ملک کے اندر سماجی اور اقتصادی شعبوں کی ترقی بھی شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ 60ء کی دہائی ہی میں نوبل انعام یافتہ پاکستانی سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام نے قومی سطح پر خلائی پروگرام کی بنیاد رکھنے کا معاملہ اٹھایا تھا مگر تب سے پاک سیٹ آئی آر کو خلاء میں چھوڑنے تک چار قیمتی دہائیاں بیت گئیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بالآخر اگست 2011ء میں جس خلائی پروگرام کی بنیاد رکھی گئی ہے، وہ عام پاکستانیوں کی زندگی پر کیا مثبت اثرات مرتب کر سکے گا۔