پاکستانی خواتین میں چھاتی کے سرطان میں اضافہ
31 اکتوبر 2014حالیہ برسوں میں پاکستان میں اس سرطان کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ پاکستانی خواتین میں چھاتی کے سرطان کی شرح ایشیا میں سب سے زیادہ ہے اور یہاں ہر نو میں سے ایک خاتون کو اس مرض کا خطرہ لاحق ہے۔
ڈائریکٹر ارنم ہسپتال پشاور ڈاکٹر رﺅف خٹک کے مطابق تشویش ناک بات یہ ہے کہ پاکستان میں ہر سال تقریباً چالیس ہزار خواتین چھاتی کے سرطان میں مبتلا ہو کر موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کا کہنا ہے کہ اس مرض پر قابو پانے اور درست علاج کر کے اموات کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ اس مرض کی بر وقت تشخیص کی جائے۔
خواتین کو اس بیماری کے لگنے کے سو فیصد امکانات ہوتے ہیں جبکہ مردوں میں اس کا امکان صرف ایک فیصد ہے۔ اس مرض کے مختلف مراحل کے بارے میں ڈاکٹر خٹک کہتے ہیں:’’پہلی اسٹیج یا مرحلے پر مریض کے تندرست ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں لیکن اگر اس بیماری کی شدت چوتھے یعنی آخری مرحلے میں داخل ہو جائے تو پھر اس میں جان بچانا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس صورت میں ہم مریض کو بچا نہیں سکتے، صرف اُس کا خیال رکھ سکتے ہیں۔“
بریسٹ کینسر پر قابو پانے کے سلسلے میں حفاظتی اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خواتین کو پہلے گھر میں اپنا معائنہ کرنا چاہیے اور کوئی بھی غیر معمولی سرگرمی یا تبدیلی محسوس ہنے کی صورت میں فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔ ضروری ہو تو میموگرافی اور سکریننگ بھی کروانی چاہیے۔
اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر توصیف اسماعیل کا ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستان میں اس وقت تقریباً گیارہ لاکھ خواتین چھاتی کے سرطان میں مبتلا ہیں۔ اس عارضے کے ابتدائی مراحل میں کوئی علامات نہیں ہوتیں۔ عام طور پر اِس کی وجہ سے درد بھی نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ اکثر خواتین اس سے بے خبر رہتی ہیں یا پھر علامات ظاہر ہونے کے باوجود اس کو سنجیدگی سے نہیں لیتیں، جس کی وجہ سے وہ موت کے دہلیز پر جا پہنچتی ہیں۔
لیڈی ڈاکٹر توصیف اسماعیل کے مطابق لوگوں میں شعور بیدار کر کے ہم نہ صرف بریسٹ کینسر کی وجہ سے ہونے والی اموات میں کمی لا سکتے ہیں بلکہ اس مرض سے کافی حد تک چھٹکارہ بھی حاصل کر سکتے ہیں:’’خواتین کو ہر سال ڈاکٹر کے پاس جا کر کلینکل بریسٹ معائنہ کروانا چاہیے، خصوصاً جن کی عمریں چالیس سال سے زیادہ ہیں، اس طرح ہم بر وقت اس کی تشخیص کر سکیں گے اور اس کے علاج میں آسانی اور کامیابی زیادہ ہو گی۔“
انہوں نے بتایا کہ چھاتی کے سرطان کی بہت سی وجوہات میں خواتین کا بچوں کو اپنا دودھ نہ پلانا، غیر متوازن خوراک، نامناسب ورزش، تاخیر سے شادیاں اور خواتین کا غیر صحت مندانہ طرز زندگی بھی شامل ہیں۔
ایک اور لیڈی ڈاکٹر شکیلہ آصف نے بتایا کہ خیبر پختون خوا میں بریسٹ کینسر ملک کے دوسرے حصوں کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے اور اسے کم کرنے کے لیے آگاہی مہم کی بہت اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ روایتی طور پر لوگ یہاں ابھی بھی چھاتی کے کینسر پر بات کرنا پسند نہیں کرتے، جس کی وجہ سے اس میں خاطر خواہ اضافہ ہو رہا ہے۔
ڈاکٹر شکیلہ کے خیال میں اس مرض میں اضافے کی ایک بڑی وجہ یہاں کے لوگوں کا قدامت پسند رویہ ہے:’’یہاں پر ابھی بھی وہی پٹھانوں والی (پرانی) سوچ ہے کہ بہنوں اور بیٹیوں کو ڈاکٹر کے پاس نہیں لےکر جانا ہے اور ان کا معائنہ نہیں کرانا، یہ ایک بہت حساس جگہ کا کینسر ہے تو یہ لوگ اس میں شرم محسوس کرتے ہیں۔“
پاکستان میں بریسٹ کینسر یا چھاتی کے سرطان میں تیزی سے اضافے کے پیش نظر، اس کے روک تھام کے لیے اکتوبر کے مہینے کو پنک ربن کے طور پر منایا گیا، جس میں ملک کے بیشتر حصوں میں مختلف آگاہی پروگراموں کے ساتھ ساتھ کالجوں اور یونیورسٹیوں کی طالبات کو اس مرض کی علامات اور اہم حفاظتی تدابیر سے بھی آگاہ کیا گیا۔