1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ماحور شہزاد اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کریں گی

13 جون 2021

چوبیس برس کی ماحور شہزاد ٹوکیو اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کریں گی۔ وہ پاکستان کی پہلی خاتون کھلاڑی ہیں، جو بیڈمنٹن ڈسپلن کے لیے کوالیفائی کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/3ul0y
Mahoor Shahzad | Badminton
تصویر: Shahzad

ماحور شہزاد دنیا کی ان ایک سو تینتیس خواتین کھلاڑیوں میں شامل ہیں، جو ٹوکیو اولمپکس میں اپنے اپنے ملکوں کی نمائندگی کریں گی۔ ان خواتین نے کوالیفائی راؤنڈ میں کامیابی کے بعد گرمائی اولمپکس کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا۔  کووڈ انیس بیماری کو وبا کی وجہ سے ماحور اُن کئی ٹورنامنٹس میں شریک نہیں ہو سکیں، جن کی انہیں دعوت دی گئی تھی۔

رابعہ قادر: اولمپکس میں پہلی پاکستانی رضا کار خاتون

خواب کی تکمیل

اولمپک گیمز کے لیے کوالیفائی کرنے پر ماحور شہزاد نے اسے اپنے بچپن کے خواب کی تکمیل سے تعبیر کیا ہے۔ انہوں نے گیارہ برس کی عمر میں بیڈمنٹن کھیلنا شروع کیا تھا۔ تیرہ برس کی عمر میں پہلا ٹورنامنٹ جیتا اور کم عمری میں اس کامیابی نے ان کے حوصلے اور ہمت کو مزید بڑھایا۔ انیس برس کی عمر میں وہ ملکی چیمپیئن بننے میں کامیاب رہیں۔ ماحور شہزاد کے مطابق اولمپکس میں کوالیفائی کرنا یقینی طور پر ایک بڑی بات ہے۔

Mahoor Shahzad | Badminton
ماحور شہزاد کو اب تک کی محنت کے دوران ناکافی سہولیات بھی ان کے آڑے آتی رہیںتصویر: Shahzad

کھیل کی سہولیات

ماحور شہزاد کے والد محمد شہزاد بھی بیڈمنٹن کی سابق کھلاڑی رہ چکے ہیں اور انہی کی بدولت ان کی بیٹی بیڈمنٹن میں پاکستان کا نام روشن کر رہی ہے۔ والد اور خاندان کے دیگر افراد کی بھرپور محنت اور حوصلہ افزائی کی وجہ سے ماحور کے کھیل میں مسلسل بہتری آتی گئی۔

ماحور شہزاد نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اب تک کی محنت کے دوران ناکافی سہولیات بھی ان کے آڑے آتی رہیں۔ اس میں بہتر پبلک کورٹس اور معیاری کوچز کی عدم دستیابی خاص طور پر نمایاں ہیں۔

گرلز ان گرین، پاکستانی خاتون کرکٹرز میدان میں

ماحور شہزاد کے مطابق پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے دور و نزدیک کھیل کی سہولیات پوری طرح میسر بھی نہیں ہیں۔ ان کے خیال میں قدامت پسند پاکستانی معاشرے میں خواتین کو گھریلو ذمہ داریاں سنبھالنے کی تلقین کی جاتی ہے اور مسابقتی کھیلوں میں ان کی شرکت کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔

اس پاکستانی خاتون کھلاڑی کے مطابق اس رویے کی وجہ سے کھیل کا ملکی شعبہ کئی ایتھلیٹس سے محروم رہ جاتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ خوش قسمت ہیں کہ ان کو خاندان کی مکمل حمایت حاصل رہی۔

Pakistan Mädchen beim Box-Training in Karachi
پاکستان میں لڑکیاں باکسنگ سمیت مختلف کھیلوں کا حصہ بنتی جا رہپی ہیں، لیکن یہ عمل قدرے سست ہےتصویر: Reuters/A. Soomro

مردوں کی دنیا

ایک اور خاتون کھلاڑی نورینا شمس کا تعلق پاکستان کے شمال مغربی علاقے سے ہے۔ تیئیس سالہ نورینہ شمس اسکواش کھیلنے کے علاوہ اسپورٹس کی ترویج کی ایک سرگرم کارکن بھی ہیں۔

ان کا علاقہ ملکی سکیورٹی فورسز اور انتہا پسند طالبان کے درمیان مسلح جھڑپوں کا گڑھ بھی رہا۔ ان کے مکان پر دو مرتبہ گولے گرے۔ بچپن میں ہی نورینا کے والد کا انتقال ہو گیا تھا اور ان کی والدہ نے ان کی پرورش تنہا کی۔

اُشنا سہیل، ٹینس میں عالمی رینکنگ پانے والی پہلی پاکستانی خاتون

نورینا شمس کا کہنا ہے کہ وہ لڑکے کا روپ دھار کر پندرہ سال کی عمر میں محلے میں دوسرے لڑکوں کے ساتھ کرکٹ کھیلتی تھیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو مزید بتایا کہ مرد کے بغیر ایک عورت یا لڑکی کا مرد کے غلبے والی گیمز میں حصہ لینا انتہائی مشکل امر ہے اور ایسے میں کچھ مرد حوصلہ شکنی کے ساتھ ساتھ ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔

Pakistan Cricket Board
عاصمہ عباس ایک پاکستان کی مشہور خاتون فٹ بال کھلاڑی ہیں، ان کو ایک جرمن کوچ کی تربیت حاصل رہی ہےتصویر: DW

سیاست اور کرپشن

ثنا محمود پاکستان کی قومی فٹ بال اور باسکٹ بال ٹیموں کی سابق کپتان ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں کھیل کے شعبے میں کرپشن اور سیاسی رویوں نے خواتین کو بھرپور شرکت سے محروم کر رکھا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کھیل کی تنظیمیں سیاسی روابط پر استوار ہیں اور ان پر مردوں کا غلبہ ہے اور اس کا مطلب ہے کہ عورت کا کھیل میں داخلہ کسی حد تک ممنوع ہے۔

پاکستان خواتین کرکٹرز نے طلائی تمغہ جیت لیا

ثنا محمود کے مطابق ملک میں کھیل کی قیادت کمزور ہاتھوں میں ہے اور مالی معاملات میں خیانت کا عنصر موجود ہے۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ ان وجوہات کی وجہ سے  کھیل کے میدان ہوں یا تنظیموں میں انتظامی معاملات، خواتین کو ان کے  جائز حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔

ماورا باری، اسلام آباد (ع ح/ا ا)