ماحور شہزاد اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کریں گی
13 جون 2021ماحور شہزاد دنیا کی ان ایک سو تینتیس خواتین کھلاڑیوں میں شامل ہیں، جو ٹوکیو اولمپکس میں اپنے اپنے ملکوں کی نمائندگی کریں گی۔ ان خواتین نے کوالیفائی راؤنڈ میں کامیابی کے بعد گرمائی اولمپکس کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا۔ کووڈ انیس بیماری کو وبا کی وجہ سے ماحور اُن کئی ٹورنامنٹس میں شریک نہیں ہو سکیں، جن کی انہیں دعوت دی گئی تھی۔
رابعہ قادر: اولمپکس میں پہلی پاکستانی رضا کار خاتون
خواب کی تکمیل
اولمپک گیمز کے لیے کوالیفائی کرنے پر ماحور شہزاد نے اسے اپنے بچپن کے خواب کی تکمیل سے تعبیر کیا ہے۔ انہوں نے گیارہ برس کی عمر میں بیڈمنٹن کھیلنا شروع کیا تھا۔ تیرہ برس کی عمر میں پہلا ٹورنامنٹ جیتا اور کم عمری میں اس کامیابی نے ان کے حوصلے اور ہمت کو مزید بڑھایا۔ انیس برس کی عمر میں وہ ملکی چیمپیئن بننے میں کامیاب رہیں۔ ماحور شہزاد کے مطابق اولمپکس میں کوالیفائی کرنا یقینی طور پر ایک بڑی بات ہے۔
کھیل کی سہولیات
ماحور شہزاد کے والد محمد شہزاد بھی بیڈمنٹن کی سابق کھلاڑی رہ چکے ہیں اور انہی کی بدولت ان کی بیٹی بیڈمنٹن میں پاکستان کا نام روشن کر رہی ہے۔ والد اور خاندان کے دیگر افراد کی بھرپور محنت اور حوصلہ افزائی کی وجہ سے ماحور کے کھیل میں مسلسل بہتری آتی گئی۔
ماحور شہزاد نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اب تک کی محنت کے دوران ناکافی سہولیات بھی ان کے آڑے آتی رہیں۔ اس میں بہتر پبلک کورٹس اور معیاری کوچز کی عدم دستیابی خاص طور پر نمایاں ہیں۔
گرلز ان گرین، پاکستانی خاتون کرکٹرز میدان میں
ماحور شہزاد کے مطابق پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے دور و نزدیک کھیل کی سہولیات پوری طرح میسر بھی نہیں ہیں۔ ان کے خیال میں قدامت پسند پاکستانی معاشرے میں خواتین کو گھریلو ذمہ داریاں سنبھالنے کی تلقین کی جاتی ہے اور مسابقتی کھیلوں میں ان کی شرکت کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔
اس پاکستانی خاتون کھلاڑی کے مطابق اس رویے کی وجہ سے کھیل کا ملکی شعبہ کئی ایتھلیٹس سے محروم رہ جاتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ خوش قسمت ہیں کہ ان کو خاندان کی مکمل حمایت حاصل رہی۔
مردوں کی دنیا
ایک اور خاتون کھلاڑی نورینا شمس کا تعلق پاکستان کے شمال مغربی علاقے سے ہے۔ تیئیس سالہ نورینہ شمس اسکواش کھیلنے کے علاوہ اسپورٹس کی ترویج کی ایک سرگرم کارکن بھی ہیں۔
ان کا علاقہ ملکی سکیورٹی فورسز اور انتہا پسند طالبان کے درمیان مسلح جھڑپوں کا گڑھ بھی رہا۔ ان کے مکان پر دو مرتبہ گولے گرے۔ بچپن میں ہی نورینا کے والد کا انتقال ہو گیا تھا اور ان کی والدہ نے ان کی پرورش تنہا کی۔
اُشنا سہیل، ٹینس میں عالمی رینکنگ پانے والی پہلی پاکستانی خاتون
نورینا شمس کا کہنا ہے کہ وہ لڑکے کا روپ دھار کر پندرہ سال کی عمر میں محلے میں دوسرے لڑکوں کے ساتھ کرکٹ کھیلتی تھیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو مزید بتایا کہ مرد کے بغیر ایک عورت یا لڑکی کا مرد کے غلبے والی گیمز میں حصہ لینا انتہائی مشکل امر ہے اور ایسے میں کچھ مرد حوصلہ شکنی کے ساتھ ساتھ ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔
سیاست اور کرپشن
ثنا محمود پاکستان کی قومی فٹ بال اور باسکٹ بال ٹیموں کی سابق کپتان ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں کھیل کے شعبے میں کرپشن اور سیاسی رویوں نے خواتین کو بھرپور شرکت سے محروم کر رکھا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کھیل کی تنظیمیں سیاسی روابط پر استوار ہیں اور ان پر مردوں کا غلبہ ہے اور اس کا مطلب ہے کہ عورت کا کھیل میں داخلہ کسی حد تک ممنوع ہے۔
پاکستان خواتین کرکٹرز نے طلائی تمغہ جیت لیا
ثنا محمود کے مطابق ملک میں کھیل کی قیادت کمزور ہاتھوں میں ہے اور مالی معاملات میں خیانت کا عنصر موجود ہے۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ ان وجوہات کی وجہ سے کھیل کے میدان ہوں یا تنظیموں میں انتظامی معاملات، خواتین کو ان کے جائز حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔
ماورا باری، اسلام آباد (ع ح/ا ا)