1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'پاکستانی ریاست صحافت کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ‘

2 نومبر 2020

پاکستان میں آزادی اظہار رائے کو محدود کرنے کے لیے قانون کا بطور ہتھیار استعمال صحافیوں کے لیے خطرہ بن چکا ہے اور تجزیہ کاروں کی رائے میں پاکستانی ریاست اس ہتھیار کو استعمال کرنے والی سب سے بڑی طاقت بن کر سامنے آئی ہے۔

https://p.dw.com/p/3kknk
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi

اعداد و شمار کی مدد سے اس حقیقت کا انکشاف ایک ایسی نئی تحقیقی رپورٹ میں ہوا ہے، جو فریڈم نیٹ ورک کہلانے والی ایک غیر حکومتی تنظیم نے پیر دو نومبر کو جاری کی۔ یہ رپورٹ صحافیوں کے خلاف جرائم کے مرتکب افراد کے سزاؤں سے بچ جانے کے خلاف اس عالمی دن کے موقع پر جاری کی گئی ہے، جو پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج دو نومبر کو منایا جا رہا ہے۔

پاکستان میں میڈیا کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم فریڈم نیٹ ورک کی اس رپورٹ کے مطابق 2018ء  اور 2019ء میں کل سترہ صحافیوں کے خلاف ان کے صحافتی کام سے اختلاف کی بنیاد پر مختلف نوعیت کے مقدمات دائر کیے گئے۔ اس رپورٹ میں شامل کردہ اصل کیسوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ مگر جامع جائزے کے لیے مطالعہ صرف ان کیسوں کا کیا گیا، جن کے مختلف قانونی

مراحل سے متعلق تمام مصدقہ ڈیٹا خود متعلقہ صحافیوں نے شیئر کیا۔ ایسے واقعات میں 2020ء میں سامنے آنے والے کیس بھی شامل ہیں دانستہ طور پر جائزہ صرف ان کیسوں کا لیا گیا ہے، جن کے اندراج کو کم از کم ایک سال ہو چکا ہے۔

صحافیوں کے خلاف مقدمات دائر کرنے والے گروپوں کو دیکھا جائے، تو تقریباﹰ نوے فیصد مقدمات وفاقی اور صوبائی حکومتی اداروں نے دائر کیے، جن میں سے زیادہ تر مقدمات کا ذریعہ نوکر شاہی بنی۔ ان میں سے بھی چالیس فیصد کیس پولیس یا ایف آئی اے کے اعلیٰ افسران کی تحریک پر دائر کیے گئے۔ ایسے مقدمات کی اکثریت کی بنیاد تعزیرات پاکستان، دہشت گردی کے خلاف قانون اور سائبر کرائمز کی روک تھام کے قانون کو بنایا گیا۔

اس تحقیق کے مطابق ان قوانین کے تحت صحافیوں کے خلاف مقدمات میں ان پر سب سے زیادہ یعنی پینسٹھ فیصد تک واقعات میں لگائے جانے والے قانونی الزامات ‘ریاستی اداروں کے خلاف کام کرنا' اور ‘ریاستی اداروں کی تحقیر' تھے۔ اس کے علاوہ تقریباﹰ پینتیس فیصد مقدمات میں فرد جرم میں الزامات کے طور پر ‘متفرق' لکھا گیا۔ اس سے مراد عام طور پر ‘غیر قانونی اسلحہ اپنے پاس رکھنا'،

'دھماکا خیز مواد اپنے قبضے میں رکھنا'، ‘منشیات کی اسمگلنگ'، ‘ممنوعہ اشاعتی مواد اپنے پاس رکھنا' اور ‘شہریوں کو تنگ کرنا' جیسے الزامات ہوتے ہیں۔

پاکستانی صحافت کے جنٹلمین، خدا کی پناہ!

’اغوا یا لاپتہ ہونےکی وبا‘ سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر

اس کے علاوہ ان مقدمات میں سے دو تہائی میں پولیس نے متعلقہ صحافیوں کے خلاف باقاعدہ ایف آئی آر لکھی جبکہ باقی ماندہ صحافیوں کو قانونی نوٹس یا کورٹ سمن جاری کیے گئے۔ سب سے زیادہ کیس صوبہ سندھ میں صحافیوں کے خلاف درج کیے گئے جن میں سے نصف سے زائد واقعات میں نامزد کردہ صحافی پرنٹ میڈیا کے لیے کام کر رہے تھے۔

فریڈم نیٹ ورک کی اس رپورٹ کا ایک اہم حصہ نظام انصاف سے متعلق بھی ہے، جس میں یہ جائزہ لیا گیا ہے کہ آیا پاکستانی نظام انصاف صحافیوں کی اپنی بے گناہی ثابت کرنے میں مدد کرتا ہے یا وہ صحافیوں، صحافت اور آزادی اظہار رائے کے خلاف مقدمات درج کرانے والے کرداروں اور عناصر کے حق میں جاتا ہے۔

پاکستانی صحافیوں کے خلاف ایسے مقدمات میں سے صرف دو تہائی میں پولیس نے اپنی چھان بین مکمل کی جبکہ ایک تہائی مقدمات عدالت میں پہنچے۔ ان میں سے بھی بمشکل نصف مقدمات سماعت کے لیے منظور کیے گئے ہوئے مگر ان میں سے بھی تقریباﹰ ساٹھ فیصد مقدمات میں قانونی بحث ہی مکمل نہیں ہو پائی۔ اس طرح متعلقہ صحافیوں کو اپنے دفاع کا پورا موقع نہ ملا۔ رپورٹ کے مطابق ساٹھ فیصد سے زائد صحافی اپنے خلاف مقدمات میں بری نہ ہو سکے۔

فریڈم نیٹ ورک کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اقبال خٹک نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ بحیثیت مجموعی یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ پاکستانی ریاست اور حکومت ملکی صحافیوں کو نشانہ بنانے والی سب سے بڑی طاقت ہیں۔ انہوں نے بتایا، '' یہ امر تشویش ناک ہے کہ صحافیوں کو محض ان کے پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی اور حکومتی اداروں کے بارے میں بجا طور پر تنقیدی رپورٹنگ کی وجہ سے نشانہ بنایا جاتا ہے، جس کا مطلب میڈیا کی آزادی اور صحافیوں کے تحفظ دونوں پر کاری ضرب لگانا ہے۔'' 

اقبال خٹک کے مطابق، ‘‘جمہوری ممالک میں ریاست اپنے چوتھے ستون کے طور پر صحافت کو اس پر حملہ کرنے والوں کے خلاف تحفظ مہیا کرتی ہے۔ اس لیے پاکستان میں بھی ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ خود ریاست ہی صحافیوں کا شکار کرتی رہے۔''

میڈیا قوانین پر کام کرنے والے ماہر قانون آفتاب عالم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں پچھلے دس برسوں میں ایک پریشان کن پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ اب غیر ریاستی عناصر میڈیا کو زیادہ ڈراتے دھمکاتے نہیں، مگر حکومتی اداروں کا میڈیا اور صحافیوں کو اپنا دشمن سمجھ کر اور قانون کا سہارا لیتے ہوئے ان پر حملہ آور ہونا بہت زیادہ ہو چکا ہے۔ 

آفتاب عالم کا کہنا تھا، ‘‘اگر ملکی قوانین میڈیا کو تحفظ دینے اور آزادی اظہار رائے کے استحکام کے بجائے صحافت اور صحافیوں کو دبانے کے لیے استعمال ہوں گے، تو نتیجہ ایسی کمزور جمہوریت ہو گی، جو نہ ریاست کے لیے اچھی ہو گی اور نہ ہی عوام کے لیے۔''

آج منائے جانے والے عالمی دن کے موقع پر فریڈم نیٹ ورک نے جو رپورٹ جاری کی، اس میں شامل کردہ سترہ صحافیوں کے خلاف مقدمات میں سے ایک کیس اسلام آباد کے ایک ٹی وی چینل کے لیے کام کرنے والے ایک صحافی کا بھی ہے۔ اس صحافی نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے خلاف ایف آئی اے نے جو مقدمہ درج کیا، اس میں ان پر 'ملکی اداروں کے خلاف مہم چلانے' کا الزام شامل تھا۔ ان کے مطابق انہوں نے اپنے نیوز بلیٹن میں شامل رپورٹ میں نہ کسی ریاستی ادارے کا نام ظاہر کیا اور نہ ہی کسی ادارے کے خلاف کوئی بات کہی یا دکھائی گئی تھی۔ اس کے باوجود ان کے خلاف پرچہ کاٹا گیا۔

اس پاکستانی صحافی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایک سال سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے۔ میں اپنے دفاع میں چھ پیشیاں بھگت چکا ہیں مگر مجھے انصاف ملتا ہی نہیں۔ مجھے صحافت میں آٹھ سال ہوچکے ہیں۔ میں نے کئی بڑی مشکلات دیکھی ہیں۔ مگر اب میں پہلی بار اپنے پیشے سے مایوس اور اس کے خلاف ریاستی اقدامات سے دلبرداشتہ ہو چکا ہوں۔''