پاکستانی ریاست کی آپ کے آن لائن مواد پر بڑھتی گرفت
21 دسمبر 2015پاکستان کی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے سائبر کرائم بل جسے ’پریوینشن آف الیکٹرونک کرائمز بل‘ بھی کہا جاتا ہے، منظور کر کے قومی اسمبلی میں بحث کے لیے بھیج دیا ہے۔ قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد اسے سینیٹ میں بھیجا جائے گا اور اگر یہ بل سینیٹ سے بھی پاس ہو گیا تو پھر پاکستان میں باقاعدہ ایک قانون کی حیثیت اختیار کر جائے گا۔
یہ بل پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف بنائے گئے نیشنل ایکشن پلان کے تحت تیار کیا گیا ہے۔ حکومتی اراکین اس بل کو ملک میں انٹرنیٹ، موبائل فون اور دیگر تکنیکی آلات کے ذریعے کیے جانے والے جرائم اور دہشت گرد کارروائیوں کی روک تھام کے لیے ایک اہم سنگ میل قرار دے رہے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان میں سول سوسائٹی، اپوزیشن جماعتوں کے نمائندگان اور غیر سرکاری تنظیمیں اس بل کے بڑے ناقدین میں شامل ہیں۔ ان کے مطابق اس بل میں ایسی شقیں شامل کی گئی ہیں، جن کے ذریعے حکومت کی عام شہریوں کے آن لائن مواد تک براہ راست رسائی ہو جائے گی۔ اُن کے خیال میں یہ بل غیر واضح اور مبہم ہے۔ اس بل کے تحت کسی تحقیقاتی افسر کو کسی بھی شہری کے ڈیٹا تک رسائی یا پھر اس کے فون یا تکنیکی آلات کو اپنی تحویل میں لینے کی بھی اجازت ہوگی۔ اس کے علاوہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو کوئی بھی آن لائن مواد ہٹانے کا پورا حق حاصل ہو گا۔
اس بل کے حوالے سے ’میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی‘ کی شریک بانی اور ڈیجیٹل سکیورٹی کی ماہر صدف خان نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’اس بل کی شق نمبر 36 حکومت کو براہ راست کسی بھی شہری کی فون پر گفتگو اور اس کی آن لائن سرگرمیوں تک رسائی دے دے گی۔‘‘ حکومت کے طرزِ عمل کو ہدف تنقید بناتے ہوئے صدف خان نے کہا کہ ریاست انسداد دہشت گردی کی آڑ میں عوام کے بنیادی حقوق کی نفی کر رہی ہے۔ وہ اس بل کی شق نمبر 9 کے حوالے سے کہتی ہیں، ’’اس شق کے مطابق آپ کے خلاف انٹرنیٹ پر نفرت انگیز مواد یا کسی کے خلاف کوئی غلط الزام لگانے کی صورت میں قانونی کاروائی ہو سکے گی لیکن سوال یہ ہے کہ اس بات کا تعین کون کرے گا کہ آیا کوئی مواد اسلام یا ملک کی سلامتی کے خلاف ہے۔‘‘
اس بل کے ناقدین میں ایک غیر سرکاری تنظیم ’بولو بھی‘ بھی شامل ہے۔ اس کی ڈائریکٹر فریحہ عزیز کو اس بل کی تیاری اور اس کے مواد دونوں پر اعتراضات ہیں۔ ان کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی نے ملک کے مختلف اسٹیک ہولڈرز کی تجاویز کو سنجیدگی سے نہیں سنا اور ان تجاویز کو بل کے متن کا حصہ نہیں بنایا۔ ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات چیت میں فریحہ عزیز نے کہا، ’’ جو لوگ فیس بک، ٹوئٹر یا کسی دوسری سماجی ویب سائٹ پر اختلافی رائے رکھتے ہیں، وہ کھل کر اپنی رائے کا اظہار نہیں کر سکیں گے کیونکہ یہ تمام مواد پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی جانب سے دیکھا جا رہا ہو گا۔‘‘
بل کی شق نمبر 18 کے بارے میں وہ کہتی ہیں، ’’اس شق کے ذریعے کسی شخص پر تنقید اور اس کی بدنامی کرنے کے باعث آپ جیل بھی جا سکتے ہیں۔ اگر آپ نے کسی سیاستدا ن یا کسی اور شخص کے غلط رویے سے متعلق ویڈیو ڈالی تو بھی آپ کو سزا ہو سکے گی، جو شہری صحافت کے تصور کو ہی ختم کر دیتا ہے۔‘‘
فریحہ عزیز بلیک بیری کمپنی کی مثال دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ حال ہی میں اس کمپنی نے پاکستان سے اپنا کاروبار ختم کرنے کا اعلان اس لیے کیا کیونکہ حکومت اس سے بلیک بیری کے تمام صارفین کا ڈیٹا طلب کرر ہی تھی، جو ظاہر کرتا ہے کہ ریاست ہر حال میں یہاں کے شہریوں کی ذاتی معلومات تک رسائی چاہ رہی ہے۔
دوسری جانب حکومت اس بل کا بھر پور دفاع کر رہی ہے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے رکن اویس لغاری نے، جن کا تعلق حکومتی جماعت مسلم لیگ نون سے ہے، ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا، ’’چند لوگ بنا سمجھے بوجھے اس بل پر تنقید کر رہے ہیں، اس بل کی تیاری میں تمام اہم اسٹیک ہولڈرز کی رائے لی گئی ہے۔‘‘
کئی سیاست دان اور صحافی پہلے ہی اس بات پر نالاں ہیں کہ موبائل فون پر وہ جو بھی گفتگو کرتے ہیں، وہ ریکارڈ کی جاتی ہے۔ دوسری طرف دہشت گرد انٹرینٹ اور موبائل ایپلیکیشنز استعمال کرتے ہوئے ایسے جدید طریقے اختیار کرتے ہیں، جن کی وجہ سے وہ تحقیقاتی اداروں کی نظروں میں آنے سے بچ جاتے ہیں۔ خدشہ یہی ہے کہ اس بل سے دہشت گرد کارروائیاں تو نہیں رکیں گی لیکن عام شہری ضرور متاثر ہوں گے، جو دہشت گردوں کی طرح جدید ٹیکنالوجی سے واقف نہیں ہیں۔
تجزیہ کاروں کی رائے میں اس بل کو قومی اسمبلی سے پاس کروانا زیادہ مشکل نہیں ہو گا کیونکہ مسلم لیگ نون کے اراکین قومی اسمبلی میں اکثریت کے حامل ہیں تاہم سینیٹ میں اس بل کو اس کی موجودہ صورت میں پاس کروانا خاصا مشکل ہو گا کیونکہ وہاں مسلم لیگ نون اکثریت میں نہیں ہے اور لابی گروپ سینیٹ میں زیادہ اثر و رسوخ بھی رکھتے ہیں۔