1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی ریاست کے لیے سب سے بڑا خطرہ ناخواندگی

19 نومبر 2020

آج کے کروڑوں ناخواندہ پاکستانی بچے اور کل کے کروڑوں ناخواندہ بالغ شہری، یہ کوئی بےبنیاد مفروضہ نہیں بلکہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے۔

https://p.dw.com/p/3lXy1
تصویر: Privat

اسکولوں سے باہر بچوں کے مسائل پر بات تو ہوتی ہے لیکن کسی بھی حکومت نے اس مسئلے پر سنجیدگی کے ساتھ عمل کرنا تو درکنار سوچنا بھی شروع نہیں کیا۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے حقیقی نوعیت کے منصوبوں پر کسی قسم کا کام ہو ہی نہیں رہا۔ اس بارے میں کوئی غور و فکر بھی نہیں کی جارہی کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے وسائل کہاں سے آئیں گے یا پھر کس قسم کی منصوبہ بندی درکار ہو گی۔ نتیجہ یہ کہ پاکستان اپنے ہاں پانچ سال کی عمر کے تمام بچوں کا اسکولوں میں داخلہ یقینی بنانے کی حالت میں بھی نہیں۔

یونیسیف کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں تقریباً تیئیس ملین بچے اسکول نہیں جاتے۔ اس طرح پاکستان دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے، جہاں اتنی زیادہ تعداد میں بچے تعلیم سے محروم ہیں۔

ستمبر 2018ء میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ تعلیم کی فراہمی ان کی حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے اور وہ ہائر ایجوکیشن اور بنیادی تعلیم میں عوام کے لیے مساوی مواقع کی دستیابی کو یقینی بنائیں گے۔ لیکن دو سال سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود صورتحال میں کوئی بہتری نظر نہیں آ رہی۔ عمران خان نے نظام تعلیم بشمول تعلیم نسواں کے لیے بھی جامع  اصلاحات کا وعدہ کیا تھا اور عہد کیا تھا کہ ان کی حکومت پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا تعلیمی ایجنڈا لائے گی، جس کے تحت پرائمری، مڈل، سیکنڈری، پیشہ وارانہ اور اسپیشل ایجوکیشن سمیت ہر ذیلی شعبے میں اصلاحات لائی جائیں گی۔

مگر حکومت نے موجودہ مالی سال میں صرف اسی ارب روپے کا وفاقی تعلیمی بجٹ رکھا ہے جو مجموعی قومی پیداوار کا صرف 3.3 فیصد بنتا ہے اور قومی سطح پر خطے میں سب سے کم ہے۔ اسکولوں سے باہر بچوں کو اسکولوں میں بٹھانے تک کے لیے موجودہ تعلیمی بجٹ انتہائی ناکافی ہے، تو انہیں تعلیم کیسے دی جائے گی؟ نتیجہ یہ کہ اگر تعلیمی بجٹ میں اضافہ نہ کیا گیا، تو اس وقت جتنے بھی پاکستانی بچے اسکولوں سے باہر ہیں، وہ باقاعدہ داخلے کے بعد پڑھ لکھ بھی سکیں گے، اس کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

عمران خان حکومت کا ایک وعدہ تو یہ بھی تھا کہ لڑکیوں کے لیے اسکولوں کے قیام اور ان کی اعلیٰ تعلیم تک کے علاوہ لڑکیوں اور خواتین کو وظائف بھی دیے جائیں گے تاکہ وہ اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔ لیکن افسوس کہ اب تک اس حوالے سے بھی کوئی ٹھوس کام نہ ہو سکا۔ آبادی کے لحاظ سے پاکستان میں لڑکیوں اور لڑکوں کی تعداد تقریباً برابر ہے، لیکن ان میں سے زیادہ تر لڑکیاں ہی ہیں، جو اسکول نہیں جاتیں اور نہ ہی اب تک حکومت نے اس مسئلے کے حل کے لیے کوئی مؤثر اور دور رس تعلیمی پالیسی ترتیب دی ہے۔

پاکستانی ریاست کی دراصل دو ترجیحات ہیں۔ ایک ترجیح ریاست کا مذہبی تشخص بڑھانا، اس کو پروان چڑھانا اور اس کی حفاظت کرنا ہے۔ حالانکہ یہ سمجھ نہیں آتی کہ اگر مذہب کسی قسم کے خطرے میں نہیں ہے، تو پھر ایسا کیوں کیا جا رہا ہے؟

مذہب نا صرف ہر شخص کا بنیادی حق ہے بلکہ اس کی نجی زندگی کا حصہ ہوتا ہے۔ ریاست کا مذہب سے کیا تعلق؟ لیکن اگر ہو بھی، تو کم از کم اس وقت جب ریاست نے پہلے عوام کے لیے دیگر تمام شہری اور سماجی سہولیات کی فراہمی کو ممکن بنا لیا ہو۔

ریاست کی دوسری ترجیح اس وقت ملک کو لاحق فرضی خطرات ہیں، جن سے نمٹنے پر توجہ مرکوز ہے۔ یہ توجہ بہت سے ملکی وسائل "کھا” جاتی ہے حالانکہ کئی ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ بہت سے نام نہاد اور غیر پیداواری شعبوں میں سرکاری رقوم کا استعمال ناگزیر نہیں اور جب تک وسائل ایسے شعبوں میں خرچ کیے جاتے رہیں گے، تب تک نئی نسل کے ایک بڑے حصے کو ناخواندگی کے گڑھے سے نکالنے میں تاخیر ہوتی رہے گی۔

آج کے کروڑوں ناخواندہ پاکستانی بچے اور کل کے کروڑوں ناخواندہ بالغ شہری، یہ کوئی بےبنیاد مفروضہ نہیں بلکہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے۔ اس حقیقی خطرے کے تدارک کے لیے وسائل کو ترجیحی بنیادوں پر استعمال کیوں نہیں کیا جا رہا، یہ بات ہر اس انسان کے لیے ناقابل فہم ہے، جو جانتا ہے کہ قوموں کی تعمیر کا عمل تعلیم سے شروع ہوتا ہے۔

اس پہلو سے ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اپنے ماضی کے تجربات ہی کے زیر اثر رہے گا، یا اپنے آنے والے کل کو بہتر بنانے کے لیے اپنے آج کے وسائل کے مطابق آج ہی کے ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرے گا، جن کے آنے والے کل کے دن نظر آنے والے نتائج بہت تکلیف دہ ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کو بہرحال اپنے ان شہریوں میں اپنے وسائل کی سرمایہ کاری کرنا ہو گی، جنہوں نے کل اس ملک، اس کی معیشت اور اس کے ہر نظام کو چلانا ہے۔

پاکستانی ریاست نے اپنے لیے جو اہداف طے کیے ہیں ان میں عوام کی بھلائی بظاہر اور عملاً اس لیے شامل نظر نہیں آتی کہ زیادہ زور تو مذہبی تشخص اور اشرافیہ کے مفادات کے تحفظ پر دیا جاتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ بلند بانگ دعوے چھوڑ کر تعلیمی شعبے میں عملی اقدامات کی ابتدا کرتے ہوئے ایک وسیع تر اور مساوات پر مبنی تعلیمی پالیسی کا اعلان کرے، جس میں ہر پاکستانی لڑکے لڑکی کو تعلیم کے مساوی امکانات حاصل ہوں۔