پاکستانی سرحد سے ملحقہ بھارتی دیہات خالی کرا لیے گئے
30 ستمبر 2016
بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی نے وفاقی اور ریاستی سیکیورٹی فورسز کو ریاست جموں و کشمیر کی تین ہزار تین سو کلو میٹر کی لائن آف کنٹرول پر نگرانی بڑھانے کا حکم دیا ہے۔ بھارت نے پاکستانی سرحد کے قریب واقع دیہات سے انخلاء اپنے اس بیان کے بعد کیا جس میں کہا گیا تھا کہ اس نے لائن آف کنٹرول کے پار پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مشتبہ عسکریت پسندوں کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن کیا گیا ہے۔ بھارتی حکومت کے مطابق اِس آپریشن میں ایسے مشتبہ عسکریت پسندوں کو نشانہ بنایا گیا جو بھارت پر حملوں کی تیاری میں مصروف تھے۔
جمعرات کے روز بھارتی حکومت کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر پاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرائیکس کے غیر معمولی اعلان نے دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان جنگ کے امکان کو بڑھا دیا ہے۔ اِس صورتِحال میں کشمیر کے متنازعہ علاقے میں سن 2003 سے جاری جنگ بندی متاثر ہو سکتی ہے۔ پاکستان اور بھارت کشمیر پر اختیار کے معاملے پر اب تک دو جنگیں لڑ چکے ہیں۔ دونوں ممالک اس کے ایک ایک حصے پر کنٹرول رکھتے ہیں تاہم دونوں کا دعوی ہے کہ پورے کشمیر کے خطے پر ان کا حق ہے۔
بھارت کے ’سرجیکل اسٹرائیکس‘ کے دعوے کو پاکستانی ذرائع ابلاغ بے بنیاد قرار دے رہے ہیں۔ پاکستانی میڈیا کا کہنا ہے کہ بھارتی فوج کی جانب سے کیے جانے والے حملوں کی نوعیت معمولی تھی اور ایسے حملے لائن آف کنٹرول پر معمول کا حصہ ہیں۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی کے سربراہ سرتاج عزیز نے جمعے کے روز وزیراعظم نواز شریف کی صدارت میں ہونے والے کابینہ کے اجلاس سے قبل ایک مقامی ٹیلیویژن چینل ’جیو‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ بھارت کے جھوٹے ہتھکنڈے ہیں، اگر حقیقت میں ایسا کچھ ہوا تو پاکستانی فوج جواب دینے کے لیے تیار ہے۔
بھارتی زیر انتظام کشمیر کے علاقے جموں کے شمال میں پہاڑی علاقوں تک لائن آف کنٹرول ک قریب واقع سینکڑوں گاؤں خالی کرائے جا رہے ہیں۔ بھارت کے زیرِ کنٹرول جموں وکشمیر کے نائب وزیرِاعلی نرمل سنگھ نے اپنے ایک بیان میں کہا،’’ ہماری بنیادی حکمتِ عملی خواتین اور بچوں کو سرکاری عمارتوں،گیسٹ ہاؤسز اور شادی ہالوں میں منتقل کرنا ہے۔‘‘ بھارت میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے جنرل سیکریٹری رام مادھو نے انڈین ایکسپریس اخبار میں چھپنے والے اپنے کالم میں لکھا،’’ ان تمام سالوں میں دہشت گردی پاکستان کے لیے سستا سودا رہا ہے، تاہم اب اسے مہنگا بنانے کا وقت آگیا ہے۔‘‘
دوسری جانب بھارت کے ایک اخبار انڈین ایکسپریس نے آج جمعے کے روز ملکی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کے حوالے سے خبر شائع کی ہے کہ لائن آف کنٹرول پر پاکستانی فوج کی جانب سے گرفتار کیے گئے بھارتی فوجی کی رہائی کے لیے تمام اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ اس حوالے سے بھارت کا مؤقف ہے کہ اُس کا فوجی نادانستہ طور پر پاکستانی حدود میں داخل ہوا تھا اور پاکستان کو چاہیے کہ اسے موجودہ طریقہء کار کے تحت واپس کر دے۔تاہم اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی کا کہنا ہے کہ بھارتی فوجی اہلکار کو پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ مودی حکومت کشمیر میں گزشتہ دس ماہ سے جاری مظاہروں کو روکنے کی کوشش میں مصروف ہے۔
بھارت مخالف مظاہروں کا حالیہ سلسلہ رواں برس آٹھ جولائی کو علیحدگی پسند کشمیری تنظیم حزب المجاہدین کے ایک نوجوان کمانڈر برہان وانی کی بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد شروع ہوا تھا۔ اُس وقت سے اب تک کم از کم اسی کشمیری مظاہرین بھارتی سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ ہزاروں زخمی ہیں۔