پاکستانی سیاست سبزی منڈی کی کیچڑ زدہ آڑھت کیسے؟
18 فروری 2021اسلام آباد کے ڈی چوک میں بلوچستان سے جبری طور پر لاپتا کر دیے گئے افراد کے اہل خانہ اور ان کے مائیں گزشتہ کئی دنوں سے احتجاج کر رہے ہیں۔ مریم نواز نے بدھ کے روز احتجاجی ماؤں کے اس دھرنے کا دورہ کیا اور اپنے خطاب میں حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ کم از کم ان خاندانوں کو یہ تو بتائے کہ ان کے لاپتا ہو جانے والے پیارے زندہ بھی ہیں یا مارے جا چکے ہیں۔ مریم نواز نے پاکستانی فوج کے سربراہ اور آئی ایس آئی سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ احتجاجی مظاہرین کے مسائل حل کریں۔
یہ موقف سیاسی اخلاقیات اور اصولی درستی دونوں حوالوں سے غلط اور نامکمل تھا۔ اس لیے کہ مہذب معاشروں میں ریاست عوام کی ماں ہوتی ہے۔ پاکستان میں ہر کوئی بلند بانگ دعووں میں یہ تو کہتا ہے کہ یہ ملک اسلام کے نام پر بنا تھا اور ملکی آئین کے مطابق تمام شہریوں کو یکساں حقوق حاصل ہیں۔ تو پھر گزشتہ کئی برسوں میں جو سینکڑوں شہری لاپتا ہو چکے ہیں، انہیں لاپتا کس نے کیا؟ موجودہ حکومت صرف یہ ہی کیوں بتائے کہ لاپتا ہونے والے اب تک زندہ ہیں یا مارے جا چکے ہیں؟ حکومت کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ جو لاپتا ہو چکے ہیں، انہیں غائب کس نے کروایا؟ جو مارے جا چکے ہیں، انہیں کس نے مارا؟ مجرموں کو سزائیں دلوائی جانا چاہییں۔ پھر 'لاپتا بلوچ افراد کے خاندانوں کے مسائل‘ فوج کے سربراہ اور آئی ایس آئی کیوں حل کریں؟ انہیں اپنے صرف وہ فرائض انجام دینا چاہییں، جو آئین میں درج ہیں۔ مریم نواز کو اپنا یہ مطالبہ حکومت اور عدلیہ سے کرنا چاہیے تھا۔ ویسے یہ مطالبہ کیا بھی کیوں جانا چاہیے تھا؟ کیا حکومت کی آنکھیں نہیں ہیں؟ انصاف اندھا ہوتا ہے مگر عدالتوں اور ججوں کی آنکھیں ہوتی ہیں؟ عدالتیں حقائق اور قانون کے تقاضوں کے پیش نظر ہی فیصلے کرتی ہیں۔
جبری گم شدگیاں شروع کب ہوئی تھیں؟
مریم نواز نے جو دوسری غلط اور نامکمل بات کی، وہ یہ تھی کہ انہوں نے یہ تو بتایا ہی نہیں کہ بلوچستان میں مقتدر اداروں کو پسند نا آنے والے یا ان اداروں کے مطابق 'مشکوک‘ سوچ کے حامل افراد کی جبری گم شدگیوں کا سلسلہ شروع کب ہوا تھا؟ کیا ایسا صرف عمران خان کی حکومت کے دور میں ہونا شروع ہوا؟ نہیں! ایسا تب بھی ہوتا تھا جب مریم نواز کے والد نواز شریف تین مرتبہ ملک کے وزیر اعظم بنے تھے۔ ایسا تب بھی ہوتا تھا جب بےنظیر بھٹو کی حکومتیں اقتدار میں تھیں۔ ایسا تو تب بھی ہوتا تھا جب اقتدار مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے پاس تھا مگر سربراہان حکومت وہ نہیں تھے، جن کے ہاں جمہوریت میں بھی سیاست، قیادت اور اقتدار کا حق 'شاہی موروثی حق‘ سمجھا جاتا ہے۔
احتساب سب کا، خود احتسابی کسی کی نہیں
پاکستان میں مہنگائی، لوڈ شیڈنگ اور کرپشن جیسے مسائل سمیت ہر منفی بات کی ذمے داری کوئی بھی برسراقتدار حکومت سابقہ حکومتوں پر ڈال دیتی ہے۔ جو اقتدار میں ہے، وہ دودھ کا دھلا ہے کیونکہ بھینس اسی کی ہوتی ہے، جس کے ہاتھ میں لاٹھی ہوتی ہے۔ جو اپوزیشن میں ہوتا ہے، وہ انتقامی مقدمات کا نشانہ بنتا ہے اور مجرم ٹھہرایا جاتا ہے۔
مریم نواز کے ڈی چوک کے دورے کے بعد ذہن میں ایک سوال یہ آتا ہے کہ کیا کسی نے مریم نواز سے یہ بھی پوچھا کہ ان کی اپنے والد سے کبھی کوئی بات ہوئی ہے، اس بارے میں کہ جب نواز شریف وزیر اعظم تھے تو انہوں نے بلوچستان سے جبری گم شدگیوں کو رکوانے کے لیے کیا کیا تھا؟ یہ سوال پوچھنے کی ہمت کون کرے گا؟ کسی پر انگلی اٹھانے سے قبل اپنے گریبان میں جھانکنا لازمی ہوتا ہے۔ لیکن پاکستان میں مسلم لیگ ن ہو، پیپلز پارٹی ہو، یا تحریک انصاف، ان کے لیے اپنے گریبان میں جھانکنا ممکن نہیں۔ ان کے گریبان سلے ہوئے ہیں۔ احتساب ہر کسی کا ہونا چاہیے، یہ نعرہ ہر کوئی لگاتا ہے۔ خود احتسابی کی بات کوئی نہیں کرتا۔
گرفتاریوں کے بعد بیمار پڑ جانے والے سیاستدان
پاکستان میں اپوزیشن کے اکثر صحت مند سیاستدان حکومت یا سرکاری احتسابی اداروں کی طرف سے دائر کیے جانے والے مقدمات کے نتیجے میں اپنی گرفتاریوں کے بعد بیمار پڑ جانے میں دیر نہیں کرتے۔ جس کسی کو وطن کو دکھ بہت زیادہ ہوتا ہے، وہ بیرون ملک بیٹھ کر سیاست کرتا ہے۔ جن کو مہنگائی کے مارے غریب عوام کا شدید دکھ ہوتا ہے، ان کے بچوں کی شادیوں پر صرف لہنگوں یا گلے کا ہاروں پر کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔ غریب پاکستانیوں کے لیے عزت کی روٹی اور علاج معالجے کی اچھی سہولیات کے نعرے لگانے والوں کی برطانیہ، امریکا اور متحدہ عرب امارات میں جائیدادیں ہیں، مغربی ممالک کے بینکوں میں اربوں ڈالر کے اثاثے ہیں یا پھر امریکا اور آسٹریلیا تک میں وسیع تر کاروبار۔
دائرے میں سفر
پاکستانی سیاست کا المیہ اس کا دائرے میں کیا جانے والا سفر ہے، جس میں کوئی بھی دائرے سے نکل کر سیدھی لکیر پر نہیں چلتا۔ موجودہ حکومت میں بھی ایسے بےشمار وزیر مشیر شامل ہیں، جو ماضی میں بھی مختلف سیاسی جماعتوں کی متعدد حکومتوں کے ادوار میں اقتدار میں رہے ہیں۔ ایسے بکاؤ رہنماؤں کو دوبارہ بڑے بڑے سیاسی اور حکومتی عہدے دینے سے کوئی حکومت ساز رہنما انکار کیوں نہیں کرتا؟
وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں سیاستدان کسی بھی سیاسی 'شاہی یا غیر شاہی‘ خاندان کا ہو، پورا سچ کوئی نہیں بولتا۔ مکمل بات کوئی نہیں کرتا۔ سیاست کے سر پر اصولوں کا تاج پہنانے کے بجائے اصولوں کو سیاست کے گھروں کی لونڈیاں بنا دیا جاتا ہے۔ یہ نہیں سوچا جاتا کہ اہمیت اصول کی ہو اور ترجیح خدمت کو دی جائے۔ اس کے بجائے سوچا یہ جاتا ہے کہ کچھ بھی کر کے اقتدار میں کیسے رہا جا سکتا ہے یا اپوزیشن سے اقتدار تک کا سفر کم سے کم فاصلہ طے کر کے کیسے پورا کیا جا سکتا ہے؟
سبزی منڈی کی کیچڑ زدہ آڑھت
اسی ذہنیت کی وجہ سے پاکستانی سیاست کسی سبزی منڈی کی کیچڑ زدہ آڑھت جیسی ہے، جہاں ماحول بھی گندہ ہوتا ہے اور کاروبار میں بھی گندی ذہنیت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ بیچنے والا سبزی بیچے یا پھل، اس کے ٹوکروں اور چھابڑیوں میں سب سے اوپر رکھے گئے تر و تازہ پھلوں اور سبزیوں کے نیچے گلا سڑا مال ہی ہو گا۔ اس منڈی میں موجود گندگی کوئی صاف نہیں کرنا چاہتا۔ کوئی یہ نہیں کرتا کہ خریدار کو بتا دے کہ ٹوکروں اور چھابڑیوں میں خوش نما پھلوں سبزیوں کے نیچے سب کچھ گلا سڑا ہے۔ جو بھی مذہب، جمہوریت، انصاف یا ترقی وغیرہ کے بورڈ لگا کر اپنی دکانیں چلا رہے ہیں، وہ مدتوں سے وہیں بیٹھے کاروبار کر رہے ہیں۔ کسی میں اتنی ہمت بھی نہیں کہ کہہ سکے کہ میں اس دھوکا دہی اور منافقت کے کاروبار کو ترک کرتا ہوں۔
بھوکے ووٹروں کو الیکشن کے دن ایک پلیٹ بریانی یا قیمے والے دو دو نان کھلا کر ووٹ لینے والے خاندانی یا نووارد سیاستدانوں کو کرنا یہ چاہیے کہ اپنے سلے ہوئے گریبان تھوڑے سے کھول لیں۔ یوں ان کے لیے اپنے اپنے گریبان میں جھانکنا ممکن ہو سکے گا۔ خود احتسابی نہیں تو کم از کم اس کا امکان تو پیدا ہو ہی جائے گا۔ ورنہ پاکستانی سیاست میں دائرے کا سفر تو جاری ہے اور سبزی منڈی میں کیچڑ زدہ آڑھت پر کاروبار بھی تو ہو ہی رہا ہے۔