پاکستانی طالبان کا انتقاماً زیادہ حملوں کا اعلان
8 نومبر 2013خبر ایجنسی روئٹرز نے ڈیرہ اسماعیل خان سے لکھا ہے کہ پاکستانی طالبان نے ملا فضل اللہ کو یکم نومبر کے روز ایک امریکی ڈرون حملے میں مارے جانے والے حکیم اللہ محسود کا جانشین اور اپنا نیا سربراہ بنانے کا فیصلہ اپنی شوریٰ یا لیڈرشپ کونسل کے ذریعے کیا۔
ملا فضل اللہ کو نیا کمانڈر ابھی کل جمعرات کے روز ہی بنایا گیا تھا۔ وہ انتہائی سخت گیر نظریات کا حامل اسلام پسند ہے، جو امن مذاکرات کو مسترد کرتا ہے۔ اب پاکستانی عسکریت پسندوں کی اس ممنوعہ تنظیم کی قیادت ملا فضل اللہ کے حوالے کیے جانے کے صرف ایک روز بعد طالبان نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ حکیم اللہ محسود کی موت کا بدلہ لینے کے لیے انتقامی کارروائیوں کی ایک نئی لہر شروع کر دیں گے۔
تحریک طالبان پاکستان کی شوریٰ کے سربراہ عصمت اللہ شاہین نے ایک نامعلوم جگہ سے روئٹرز کو ٹیلی فون پر بتایا کہ طالبان ان حملوں میں سکیورٹی فورسز، حکومتی اداروں اور تنصیبات، سیاسی رہنماؤں اور پولیس کو نشانہ بنائیں گے۔ ساتھ ہی شاہین نے یہ بھی کہا کہ طالبان کے آئندہ حملوں میں صوبہ پنجاب میں فوجی اور حکومتی تنصیبات اور اداروں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جائے گا، کیونکہ وزیر اعظم نواز شریف کی سیاسی طاقت کا مرکز صوبہ پنجاب ہی ہے۔
روئٹرز نے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ پاکستانی طالبان کی شوریٰ کے سربراہ عصمت اللہ شاہین نے اس فون کال میں مزید کہا، ’’ہمارا ایک منصوبہ ہے۔ لیکن میں ایک بات واضح کر دینا چاہتا ہوں۔ ہم سویلین آبادی، بازاروں اور عوامی مقامات کو نشانہ نہیں بنائیں گے۔ عام لوگوں کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
پاکستان عوامی سطح پر اپنے ریاستی علاقے میں امریکی ڈرون حملوں کی مذمت کرتا ہے اور انہیں اپنی خود مختاری کی خلاف ورزی قرار دیتا ہے۔ لیکن نجی طور پر حکام یہ اعتراف کرتے ہیں کہ حکومت ان ڈرون حملوں کی زیادہ تر حمایت کرتی ہے۔ پاکستانی طالبان اور بہت سے غیر ملکی عسکریت پسند زیادہ تر ان دور دراز علاقوں میں اپنے ٹھکانے بنائے ہوئے ہیں جو افغانستان کے ساتھ سرحد کے بہت قریب ہیں اور جہاں پاکستانی فوج موجود نہیں ہے۔
اس پس منظر میں عصمت اللہ شاہین نے روئٹرز کو بتایا، ’’پاکستان کے پاس ان ڈرون حملوں کے بارے میں مکمل معلومات ہیں۔ پاکستان امریکا کا غلام ہے۔ یہ ایک امریکی نوآبادی بن چکا ہے۔‘‘
روئٹرز کے مطابق حکیم اللہ محسود کی موت سے قبل پاکستان طالبان کی قیادت عارضی طور پر ہی سہی لیکن حکومت کے ساتھ امن بات چیت پر آمادہ تھی۔ لیکن ملا فضل اللہ حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کے سخت خلاف ہے۔ یہ ملا فضل اللہ کے زیر کمان عسکریت پسند ہی تھے جنہوں نے گزشتہ برس ملالہ یوسف زئی پر حملہ کیا تھا۔
پاکستان میں جب سے نواز شریف دوبارہ وزیر اعظم بنے ہیں، طالبان کے ساتھ کوئی بامعنی مکالمت نہیں ہو سکی۔ ملا فضل اللہ کے پاکستانی طالبان کا سربراہ بن جانے کے بعد ممکن ہے کہ پاکستان میں طالبان کی طرف سے خونریزی اور سیاسی بے یقینی کا ایک نیا دور شروع ہو جائے۔