پاکستانی عدالت نے مسیحی جوڑے کی سزائے موت منسوخ کر دی
4 جون 2021ایک پاکستانی عدالت نے جمعرات کے روز ایک مسیحی شادی شدہ جوڑے کے خلاف عائد توہین مذہب کے الزامات کو مسترد کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی سن 2014 میں ایک نچلی عدالت کی طرف سے ان کے خلاف سنائی گئی موت کی سزا بھی ختم کر دی گئی۔
شفقت ایمانوئل مسیح اور ان کی اہلیہ شگفتہ کوثر پر اپنے مسلم ساتھیوں کو ایسے ٹیکسٹ میسج بھیجنے کا الزام تھا جس میں مبینہ طور پر پیغمبر اسلام کی توہین کی گئی تھی۔ اس جوڑے کا دعوی ہے کہ وہ نا خواندہ ہیں۔
مسیحی جوڑے کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ جہاں کام کرتے ہیں وہاں کام کاج کے ایک تنازعے کے بعد کچھ مسلم ساتھیوں نے انہیں اس جال میں پھنسا دیا۔ شگفتہ کوثر کے رفقائے کار نے ان کے شناختی دستاویزات چرا لیے اور اس کا استعمال کرکے جوڑے کے نام سے ایک سیل فون نمبر خرید لیا۔ یہ معاملہ سم کارڈ خریدنے کے لیے صارفین کے الیکٹرانک انگوٹھے کے نشانات کو لازم قرار دینے کے موجودہ ضابطے کے نفاذ سے پہلے کا ہے۔
یورپی یونین کا موقف کیا تھا؟
مسیحی جوڑے کی رہائی کا فیصلہ یورپی پارلیمان کی طرف سے اپریل میں کیے گئے ایک اقدام کے بعد عمل میں آیا ہے۔ یورپی یونین کے قانون سازوں نے اپریل میں ایک قراداد منظور کرکے توہین مذہب کے کسیز میں 'خطرناک حد تک‘ اضافہ پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
مسیحی جوڑے کے خلاف عائد الزامات پر تبصرہ کرتے ہوئے یورپی یونین کے قانون سازوں کا کہنا تھا کہ شواہد 'انتہائی من گھڑت‘ ہیں اور پاکستانی حکام سے سزائے موت کو 'فوراً اور غیر مشروط‘ختم کرنے کی اپیل کی تھی۔
ملزم مسیحی جوڑے کے وکیل دفاع سیف الملوک نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ ان کے موکل اگلے ہفتے جیل سے باہر آ جائیں گے۔
سیف الملوک کا کہنا تھا”مجھے انتہائی مسرت ہے کہ اس جوڑے کو رہائی نصیب ہو رہی ہے۔ یہ ہمارے سماج کے انتہائی بے بس افراد میں سے ایک ہیں۔"
حقوق انسانی کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے حکومت پاکستان سے توہین اسلام قانون کو ختم کرنے پر زور دیتے ہوئے مسیحی جوڑے اوران کے وکیل کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ کیس اہم کیوں تھا؟
توہین مذہب کے الزامات مسلم اکثریتی ملک پاکستان میں ایک سنگین معاملہ ہے۔ ملک کے بہت سے علاقوں میں صرف اسلام مخالف رویے کی افواہ ہی اقلیتی فرقوں پر پرتشدد حملوں کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ اس مسیحی جوڑے کی گرفتاری سے قبل میاں بیوی اور ان کے چار بچے لاہور کے مغرب میں گوجرا قصبے میں رہائش پذیر تھے۔ سن 2009 میں گوجرا میں قرآن کی توہین کی افواہ پھیلنے کے بعد ایک ہجوم نے مسیحیوں پر حملہ کردیا تھا جس میں کم از کم سات افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
وکیل سیف الملوک نے مسیحی جوڑے شفقت ایمانوئل مسیح اور شگفتہ کوثر کی طرح کے ہی ایک کیس میں آسیہ بی بی کی نمائندگی کی تھی۔ آسیہ بی بی کو بھی موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ ان کے کیس پر جب مغربی میڈیا کی توجہ مبذول ہوئی تو بالآخر ایک پاکستانی عدالت نے ان کی سزا بھی منسوخ کردی۔ سن 2018 میں آسیہ بی بی کی رہائی اورکینیڈا منتقل کیے جانے کے خلاف پاکستان میں مذہبی انتہا پسندوں نے زبردست مظاہرے کیے تھے۔
امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت تقریباً 80 افراد توہین مذہب کے الزام میں جیلوں میں بند ہیں۔ ان میں سے نصف کو موت یا عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
ج ا/ ص ز (اے پی، روئٹرز، اے ایف پی، ای پی ڈی)