’پاکستانی عدلیہ اور حکومت کے درمیان محاذ آرائی کا خدشہ‘
5 جولائی 2012وفاقی کابینہ نے بدھ کو ہونے والے اجلاس میں توہیں عدالت کے جس نئے قانون کے مسودے کی منظوری دی تھی، اس کےتحت وزیراعظم، وزیراعلیٰ، وفاقی اور صوبائی وزراء کے خلاف سرکاری امور نمٹانے سے متعلق توہین عدالت کی کارروائی نہیں ہو سکے گی۔
وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے کہا تھا کہ توہین عدالت کے اس قانون کا مقصد عدلیہ پر قدغن لگانا نہیں ہے بلکہ قانونی ابہام دور کرنا اور آئین کے مطابق عمل کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیا قانون متعارف کرانے کا مقصد عدلیہ سے ٹکراؤ پیدا کرنا نہیں ہے بلکہ اداروں کو مضبوط کرنا ہے۔
تاہم قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت نے بظاہر سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے علاوہ بعض وزرا ء کے خلاف توہین عدالت کی کارروائیوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس قانون میں ترمیم کا فیصلہ کیا ہے۔ سپریم کورٹ کے وکیل اظہر صدیق کا کہنا ہے کہ حکومت اس نئے قانون کے تحت عوام کو بھی یہ ترغیب دے رہی ہے کہ وہ بے شک عدالتوں کی توہین کریں ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔ توہین عدالت کے نئے قانونی مسودے پر مزید تبصرہ کر تے ہوئے انہوں نےکہا: ’’اس قانون میں خاص طور پر آئین کے آرٹیکل 248 میں ترمیم اس بات کا ثبوت ہے کہ پرانے قانون کو کالعدم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس طرح یہ عدلیہ کی آزادی پر براہ راست حملہ کرے گا۔ یہ آئین کی خلاف ورزی ہو گی۔ جیسے ہی یہ قانون منظور ہو گا کوئی بھی فوری طور پر اسے چیلنج کر سکتا ہے اور عدالتی نظر ثانی کے تحت سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے پاس یہ اختیار ہے کہ اس طرح کا قانون کالعدم قراردے دے۔‘‘
وفاقی کابینہ نے اسی اجلاس کے دوران دوہری شہریت رکھنے سے متعلق قانون کے مسودے کی بھی منظوری دی۔اس مسودہ قانون کے تحت کوئی بھی شخص جو دوہری شہریت رکھتا ہو وہ رکن پارلیمان بھی بن سکتا ہے۔اس مسودہ قانون میں کہا گیا ہے کہ ملک میں موجود وہ تمام افراد جو دوہری شہریت رکھتے ہیں وہ نہ صرف انتخابات میں حصہ لے سکیں گے بلکہ دوہری شہریت بھی رکھ سکیں گے۔
حکومت نے یہ قانون ایک ایسے موقع پر متعارف کرایاہے جب سپریم کورٹ نے خلاف آئین دوہری شہریت رکھنے والے مختلف سیا سی جماعتوں کے ارکان پارلیمنٹ کی رکنیت معطل کی ہے۔ اب تک اس عدالتی کارروائی کی زد میں سب سے زیادہ حکمران جماعت پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے ارکان آئے ہیں۔ سپریم کورٹ ہی کے ایک اور وکیل عامر عباس کا کہنا ہے کہ دوہری شہرت کا نیا قانون چند سیاست دانوں کو تحفظ دینے کی کوشش ہے۔ انہوں نے کہا: ’’کوئی بھی قانون جو بنایا جائےوہ آئین کے تابع ہوتا ہے نہ کہ کسی کے ذاتی مفاد کے لیے۔ اس میں ترمیم کی جاتی ہے۔مجھے بظاہر یہ لگتا ہے کہ جب کوئی کسی چیز کے نیچے آتا ہےتو اس کو بچانے کے لئے قانون میں ترامیم کی جاتی ہیں۔ اگر کسی قانون میں ترمیم کرنی ہوں تو وہ آئین اور قرارداد مقاصد کو مد نظر رکھ کر کی جائے نہ کہ کسی خاص گروپ یا طبقے کے لیے کی جائیں۔‘‘
آئینی ماہر اور سابق جج طارق محمود کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال میں یہ بات عیاں ہے کہ آنے والے دنوں میں عدلیہ اور حکومت کے درمیان پہلے سے جاری کشیدگی میں اضا فہ ہوگا۔ انہوں نے کہا: ’’ایک بات ضرور ہوگی کہ اس طرض کی کوئی ترمیم ہوگی تو یقینا اس کو چیلنج کیا جائے گا۔ پھر آخر کار اس پر عدالتی فیصلہ آئے گا تو اس کی وجہ سے میر اخیال ہے کہ عدلیہ ،ایگزیکٹو اور پارلیمنٹ کے درمیان ایک محاز آرائی کی صورت سامنے آئے گی تو اس کی وجہ سے ملک کی سیاسی صورتحال زیادہ اچھی نہیں ہوگی۔‘‘
دریں اثنا ء حکومت کا کہنا ہے کہ قانون کے دونوں مسودے منظوری کے لیے جلد پارلیمنٹ میں پیش کر دیے جائیں گے۔
رپورٹ: شکور رحیم ، اسلام آباد
ادارت: ندیم گِل