پاکستانی عسکریت پسند: فنڈ ریزنگ کے لئےجرائم
12 اکتوبر 2011پاکستان میں القاعدہ کے لیے فنڈز جمع کرنے کا ایک نیا طریقہ تیزی سے رفتار پکڑ رہا ہے، جس کی مدد سے عسکریت پسند اسلحے اور دیگر ساز و سامان کے اخراجات کے لئے فنڈز اکٹھے کرتے ہیں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ یہ گروہ بیرونی امداد سے زیادہ اندرون ملک ڈکیتیوں، اغوا برائے تاوان اور جبری بھتہ وصولی جیسے جرائم پر انحصار کر رہے ہیں۔
چند ماہ قبل خیبر پختونخوا کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان میں چار طالبان عسکریت پسند پولیس مقابلے میں مارے گئے تھے۔ یہ واقعہ تب پیش آیا جب یہ چاروں ایک نجی بنک سے ایک لاکھ 38 ہزار ڈالر لوٹ کر افغان سرحد کی جانب فرار ہو رہے تھے۔
اس واقعے کے 10 روز بعد ڈیرہ اسماعیل خان میں ہی طالبان کی طرف سے ایک پولیس اسٹیشن پر کیے جانے والے ایک خودکش حملے میں 9 پولیس اہلکار جاں بحق ہوگئے جبکہ پولیس اسٹیشن بری طرح سے تباہ ہو گیا۔ ان دونوں واقعات کی ذمہ داری بھی 'بلیک نائیٹ' ہی نے قبول کی۔
انسداد دہشت گردی سے متعلق ایک سرکاری افسر نےاپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس کی ایک وجہ گزشتہ کچھ برسوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف بڑھتے ہوئے پاکستانی اور امریکی حملے بھی ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اس کی وجہ شمالی پاکستان میں امریکی ڈرون میزائل حملے اور پاکستانی فوج کی کارروائیوں میں عسکریت پسندوں کے کئی سینئر کمانڈر کی ہلاکت بھی مانی جاتی ہے، جو مشرق وسطٰی کے فنڈنگ نیٹ ورکس سے رابطہ رکھتے تھے۔ اس کے نتیجے میں عسکریت پسندوں کا اندرونی ذرائع سے فنڈز اکٹھا کرنے کا رجحان بڑھتا ہوا نظر آ رہا ہے۔
امریکی اور عراقی حکام کے مطابق عراق میں بھی پچھلے کئی برسوں میں اسی طرح کے جرائم میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ پاکستانی طالبان کا نیٹ ورک ملک کے شمال مغربی علاقے اور وسطی پنجاب سے لے کر تجارتی دارالحکومت کراچی تک پھیلا ہوا ہے۔
پاکستان میں عسکریت پسندوں کے مسائل کے ایک ماہر عامر رانا کا کہنا ہے کہ اغوا برائے تاوان کے لئے ان عسکریت پسندوں کا مطالبہ ڈیڑھ لاکھ ڈالر سے لے کر 1 ملین ڈالر تک ہوتا ہے۔ اسی گروہ نے سوئٹزرلینڈ کے ایک جوڑے کو رواں برس جولائی میں اغوا کر کے افغان سرحد پر قید رکھنے کی ذمہ داری قبول کی اور یہی گروہ مبینہ طور پر پنجاب کے مقتول سابق گورنر سلمان تاثیر کے صاحبزادے شہباز تاثیر کےاگست میں اغوا کئے جانے کے واقعے میں بھی ملوث ہے۔ ماہرین کے مطابق شہباز کو وزیرستان کے علاقے میں افغان سرحد کے قریب رکھا گیا ہے۔
اسی گروہ کے ایک رکن نے اپنی شناخت پوشیدہ رکھتے ہوئے بتایا کہ 'بلیک نائیٹ' کی سربراہی حکیم اللہ محسود اور ولی الرحمان محسود کرتے ہیں۔ اس نے بتایا کہ با اثر پاکستانیوں اور غیر ملکیوں کو اغوا کرنا ان کا اولین ایجنڈا ہے۔ اس نے مزید کہا کہ "ہم پاکستان آرمی کے خلاف ہیں، نہ نیٹو فورسز کے۔ ہمارا اولین مقصد صرف اور صرف جہاد کرنا ہے۔"
کراچی میں 2011ء میں ابھی تک کی گئی 2.3 ملین ڈاالر کی چار بنک ڈکیتیوں میں سے تین کا شبہ طالبان عسکریت پسندوں پر کیا جا رہا ہے۔ کراچی کے ایک دولتمند پشتون تاجر سے طالبان نے 20 ہزار ڈالر کا مطالبہ کیا تھا۔ اُس کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندوں نے اسے اور اس کے کاروبار کو نقصان پہنچانے کی دھمکی دی تھی۔
ایک اور واقعے میں عسکریت پسندوں نے کراچی کے ہی ایک پشتون تاجر سے اس کے سات سالہ بیٹے کی رہائی کے عوض 80 ہزار ڈالر وصول کئے۔ پاکستانی طالبان کے ایک رکن محمد یوسف کے مطابق کراچی سے فنڈ ریزنگ المنصور اور المختار نامی گروہوں کے ذمے ہے، جن کا کام کراچی میں دیگر دہشت گرد سرگرمیوں کے علاوہ افغانستان میں نیٹو فورسز کے لئے بھیجے جانے والے ٹینکروں پر حملے کرنا ہے۔
رپورٹ: عائشہ حسن
ادارت: امجد علی