1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی فوج سے اپنی پوزیشن واضح کرنے کے مطالبات

شکور رحیم، اسلام آباد30 دسمبر 2013

پاکستان میں سنگین غداری کے مقدمے کا سامنا کرنیوالے سابق فوجی آمر جنرل مشرف کے اس انٹرویو نے ملک کے سیاسی منظرنامے پر ہلچل مچا دی ہے جس کے مطابق ان کے خلاف آئین سےغداری کے الزامات پر پوری فوج ناراض ہے۔

https://p.dw.com/p/1Aia5
تصویر: Reuters

جنرل مشرف نے اتوار 29 دسمبر کو ایک فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں ایسی معلومات حاصل ہوئی ہیں جن کے مطابق اس معاملے پر پوری فوج ان کے ساتھ ہے۔

پر ویز مشرف کے اس انٹرویو پر بعض حلقوں نے فوجی قیادت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس معاملے پر اپنی پوزیشن واضح کرے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ جنرل مشرف کی جانب سے بڑا دعوٰی کیا گیا ہے، اس پر فوج کی جانب سے بیان آنا چاہیے تھا۔یہ خاموشی نیم رضا مندی ہے۔

جنرل مشرف کے بیان اور اس پر فوج کی خاموشی سے سول ملٹری تعلقات کے بارے میں بھی سوالات اٹھنا شروع ہو گئے ہیں
جنرل مشرف کے بیان اور اس پر فوج کی خاموشی سے سول ملٹری تعلقات کے بارے میں بھی سوالات اٹھنا شروع ہو گئے ہیںتصویر: picture-alliance/ dpa

تاہم ابھی تک فوج کی جانب سے اس معاملے پر خاموشی اختیار کی گئی ہے۔ البتہ وفاقی وزیر اطلاعات سینیٹر پرویز رشید نے پیر کے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف کو جو کچہ کہنا ہے عدالت میں کہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے آئین اور قانون نے جنرل مشرف کو بہترین موقع فراہم کر دیا ہے کہ وہ اپنا جو بھی مؤقف بیان کرنا چاہیں عدالت کے سامنے جاکر بیان کریں۔ پرویز رشید کا مزید کہنا تھا، ’’ہم ان کو 14 سال سنتے رہے، اس وقت بھی سنا جب وہ ہاتھ میں پستول لے کر اور مکے لہرا لہرا کر بات کرتے تھے۔اب ہم چاہیں گے کہ انہیں عدالت میں سنیں۔ تاریخ کی عدالت نے ان کے بارے مین فیصلہ کر دیا اب انہیں قا نون کی عدالت میں جا کر بات کرنی چاہیے۔‘‘

جنرل مشرف کے بیان اور اس پر فوج کی خاموشی سے سول ملٹری تعلقات کے بارے میں بھی سوالات اٹھنا شروع ہو گئے ہیں۔ سینئیر صحافی اور تجزیہ کار رانا قیصر کا کہنا ہے کہ فوج کا رد عمل سامنے آنے تک اس بارے میں قیاس آرائیاں کرنا درست نہیں ہوگا۔ ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف کے بیان کے سیاق و سباق کو سمھجنے کی ضرورت ہے: ’’ایک آرمی چیف جب فیصلہ لیتا ہے اور کوئی اقدام کرتا ہے تو یقیناﹰ پھر وہ ادارہ اس میں شامل ہو جاتا ہے۔ اب دیکھنا یہ کہ وہ ادارہ (فوج) کس حد تک اپنی غیر جانبداری کو قائم رکھتا ہے۔‘‘

جنرل مشرف کے خلاف خصوصی عدالت میں غداری کے مقدمے کی آئندہ سماعت یکم جنوری کو طے ہے
جنرل مشرف کے خلاف خصوصی عدالت میں غداری کے مقدمے کی آئندہ سماعت یکم جنوری کو طے ہےتصویر: Reuters

ماہر قانون جسٹس (ر) طارق محمود کا کہنا ہے کہ اس موقع پر فوج کی جانب سے کسی بھی قسم کے وضاحتی بیان کے مزید مطلب نکالے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف کےانٹر ویو کو زیادہ سنجیدہ لینے کی ضرورت نہپیں۔جسٹس (ر) طارق محمود کا اس حوالے سے مزید کہنا تھا: ’’اگر وہ (فوج) انکار بھی کریں تو تب بھی اس میں ملوث ہو جائیں گے تو میرا خیال ہےکہ ایک مقدمہ عدالت میں زیر التواء ہے تو دوسرے ادارے کو بھی چاہیے وہ خاموش رہے۔کیونکہ ظاہر ہے پر ویز مشرف اس وقت ایک ایسے مقدمے کا سامنا کر رہے ہیں جس کے سنجیدہ نتائج بھی ہو سکتے ہیں، تو پریشانی کے عالم میں کوئی ایسی بات کہہ دی ہے تو میرے خیال میں نظر انداز کر دینی چاہیے۔‘‘

جنرل مشرف کے خلاف خصوصی عدالت میں غداری کے مقدمے کی ایک سماعت ہو چکی ہے۔ جنرل مشرف سکیورٹی خدشات کی بناء پر عدالت میں پیش نہیں ہوئے تھے۔ آئندہ سماعت پر جو یکم جنوری کو طے ہے، ان پر فرد جرم عائد کی جائے گی۔