پاکستانی فوجی سربراہ جنرل باجوہ کا دورہ سعودی عرب
16 اگست 2020پاکستان فوج کے ایک ترجمان نے تاہم جمعرات 13 اگست کو کہا تھا کہ پاکستانی فوجی سربراہ کا دورہ سعودی عرب 'فوجی معاملات‘ سے متعلق ہے۔ تاہم تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان میں سب سے طاقتور شخصیت سمجھے جانے والے جنرل قمر جاوید باجوہ کے اس دورے کا مقصد اس سفارتی تناؤ میں کمی لانے کی کوشش ہے جو پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ایک بیان کے بعد پیدا ہوا۔
اگست 2019ء میں بھارت نے اپنے زیر انتظام جموں وکشمیر کو ملک میں ضم کر لیا تھا جس کے بعد سے پاکستان، اقوام متحدہ کے بعد سب سے بڑی تنظیم تصور کی جانے والی 57 اسلامی ممالک پر مشتمل اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) سے وزرائے خارجہ اجلاس بلانے پر زور دیتا آ رہا۔ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے حال ہی میں غیر معمولی طور پر سخت لہجہ اختیار کرتے ہوئے سعودی عرب کی زیر قیادت او آئی سی سے کہا تھا کہ وہ کشمیر کے بارے میں وزرائے خارجہ کی کونسل کے اجلاس کے انعقاد کے سلسلے میں پس و پیش سے کام لینا بند کرے۔
کشمیر کی بحث میں سعودی عرب زیر بحث، آخر کیوں؟
'امہ امہ کی رٹ لگانا بند کرنا چاہیے‘
شاہ محمود قریشی نے پاکستان کے ایک پرائیویٹ چینل پر اپنے ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا، ”میں ایک بار پھر احترام کے ساتھ او آئی سی کو بتا رہا ہوں کہ ہم وزرائے خارجہ کی کونسل کے اجلاس کی توقع کرتے ہیں، اگر آپ اس کو طلب نہیں کرسکتے ہیں تو پھر میں وزیراعظم عمران خان کو ان اسلامی ممالک کا اجلاس طلب کرنے پر مجبور کروں گا جو مسئلہ کشمیر پر ہمارے ساتھ کھڑے ہونے اور مظلوم کشمیریوں کی حمایت کے لیے تیار ہیں۔‘‘
پاکستانی وزیر خارجہ کے اس بیان کے بعد سعودی عرب نے دو ہفتے قبل پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی ادائیگی کرنے پر مجبور کیا تھا جس کی وجہ سے یہ اپنے قریبی اتحادی چین سے قرض لینے پر مجبور ہوگیا تھا جبکہ ابھی تک ریاض نے تیل کے قرضوں کی سہولت میں توسیع کی پاکستان کی درخواست پر کوئی جواب نہیں دیا ہے۔
بہت سے مبصرین کا خیال ہے جنرل باجوہ کے دورے کے مقصد اس سفارتی تناؤ میں کمی لانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ تاہم پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے جمعرات کے روز کہا تھا۔ ''ہاں وہ سفر کر رہے ہیں، یہ دورہ پہلے سے طے شدہ تھا اور بنیادی طور پر فوجی امور پر مبنی تھا۔‘‘
ا ب ا / ش ح (ڈی پی اے، روئٹرز)