پاکستانی قبائلی علاقوں میں القاعدہ کی جڑیں گہری
26 اگست 2011ایک دہائی پہلے افغانستان پر امریکی حملے کے بعد فرار ہونے والے القاعدہ کے رہنماؤں نے پاکستان کے شمال مغربی قبائلی علاقے، جہاں قانون نہ ہونے کے برابر ہے، میں اپنا ٹھکانہ بنا لیا۔ انہوں نے نئی نسل کی بھرتی شروع کی اور گرفتاری سے بچنے کے لیے وہاں انہیں تربیت فراہم کی۔
اس طویل جنگ میں عسکریت پسندی کی جڑہیں اس حد تک مضبوط ہو چکی ہیں کہ امریکہ اور پاکستان کے میزائل بھی اسے اکھاڑنے میں ناکام رہے ہیں۔
جب ابو سلمان شمالی وزیرستان کی چیک پوسٹوں کے قریب سے گزرتا ہے اور کبھی کبھی رکتا بھی ہے، تو اونچی آواز میں کار کا میوزک چلا دیتا ہے اور سگریٹ سلگا لیتا ہے تاکہ پولیس کو اس کی مذہبی انتہا پسندی کا علم نہ ہو پائے اور کوئی اس پر شبہ نہ کرے۔
اس کے علاوہ اس کی دوسری چال یہ ہوتی ہے کہ بس میں سفر کرتے ہوئے، وہ اپنی سیٹ پر انگریزی اخبار چھوڑ جاتا ہے تاکہ وہ پاکستان کا مہذب اور آزاد خیال شہری لگے۔ القاعدہ کے اس رہنما نے کچھ عرصے پہلے فرانسیسی خبر رساں ادارے کو جعلی نام بتایا اور کہا کہ وہ پشاور کے ایک مضافاتی علاقے میں کار ڈیلر ہے۔ یونیورسٹی سے تربیت یافتہ انجینر ابو سلمان نے 2008ء میں افغانستان میں کام شروع کیا۔ بعد میں اس نے بتایا کہ امریکہ سے اسے بہت تکلیف پہنچی ہے۔
اس نے ابتدائی فوجی تربیت مشرقی افغانستان میں حاصل کی اور پھر 2008ء کے آخر میں اس کو القاعدہ نیٹ ورک میں شامل کیا گیا۔ اس کے ذمے کھانے پینے اور ادویات پہنچانے کا کام سونپا گیا۔ ابو سلمان کو پاکستان میں القاعدہ کی ’کامیابی کی علامت‘ سمجھا جاتا ہے۔ القاعدہ کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے پاکستانی صحافی زاہد حسین کا کہنا ہے، ’القاعدہ افغانستان سے تو کافی حد تک نکالی جا چکی ہے، لیکن وہ پاکستان میں کافی مضبوط ہو گئی ہے، القاعدہ نے پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات کا زیادہ فائدہ اُٹھایا ہے۔‘‘
شمالی وزیرستان میں ایک اندازے کے مطابق کئی سو غیرملکی عسکریت پسند القاعدہ کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ان میں زیادہ تر کا تعلق عرب ممالک اور ازبکستان سے ہے اور کچھ افریقی اور چیچن بھی ہیں ۔ اس کے علاوہ مغربی ممالک کے بھی کچھ شہری القاعدہ سے وابستہ ہیں۔ ابو سلمان کا کہنا ہے کہ وہ ٹیلی فون اور انٹرنیٹ کا استعمال نہیں کرتے کیونکہ ان سے ان کے پکڑے جانے کا اور ڈرون حملے سے مارے جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ القاعدہ اپنے کارکنوں کے لیے کرائے کے گھر لیتی ہے اور وہاں کے مقامی طالبان اغوا برائے تاوان کے ذریعے فنڈز اکٹھا کرتے ہیں۔ غیرملکی طالبان نے اپنا حُلیہ بدل کر مقامی قبائلیوں جیسا بنا رکھا ہوتا ہے۔ وہ ویسا ہی لباس پہنتے ہیں اور ان کے رہن سہن سے بھی ان کو پہچاننا بہت مشکل ہوتا ہے۔ یہاں انہوں نے مقامی لڑکیوں سے شادیاں کر رکھی ہیں.
صرف وہاں کے مقامی ہی ان کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔ القاعدہ اس بات سے خوش ہے کہ افغان جنگجو سردار جلال الدین حقانی کو پاکستان انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کا تعاون حاصل ہے۔ اسی وجہ سے یہ علاقہ کسی بھی زمینی آپریشن سے بچا ہوا ہے۔ وہاں کے مقامی لوگ بہت ہی پریشان حال ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں ان دس برسوں میں طالبان کی وجہ سے کاروبار سمیت بچوں کا مستقبل تباہ ہو کر رہ گیا ہے۔
رپورٹ : سائرہ ذوالفقار
ادارت : عاطف توقیر