پاکستانی قبائلی علاقے میں خاتون سماجی کارکن کا قتل
5 جولائی 2012خیبر پختونخوا اور افغانستان کی سرحد سے ملحق قبائلی علاقوں میں ٹارگٹِڈ کلنگ معمول بنی ہوئی ہے اور اس رجحان میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا۔ اب علماءاور سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ امن لشکر اور غیر سرکاری تنظیموں کے اہلکاروں کو بھی نشانہ بنایا جارہاہے۔
جمرود میں قتل ہونے والی فریدہ آفریدی سویرا نامی ایک غیر سرکاری ادارے سے وابستہ تھیں۔ وہ جمرود میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دو مراکز میں خواتین کو تربیت دینے کے ساتھ ساتھ سلائی کڑھائی کے مراکز میں بھی کام کرتی تھیں۔
اطلاعات کے مطابق انہیں پہلے بھی دھمکیاں مل رہی تھیں، تاہم وہ روز گار کے حصول، وسائل میں اضافے اورحقوق و گھریلو تشدد کے بارے میں آگاہی دینے کے لیے علاقے میں خواتین کے اجتماعات منعقد کرتی رہیں۔
خیبر ایجنسی کی تحصیل جمرود میں فریدہ واحد خاتون تھیں جنہوں نے تمام تر مشکلات اور دھمکیوں کے باوجود خواتین کی فلاح و بہبود کیلیے کام روکنے سے انکار کیا۔ جمرود کی انتظامیہ نے انکے قتل کے الزام میں تین افراد کو شک کی بنیاد پر حراست میں لیا ہے۔ اس سلسلے میں جب جمرود کے معروف صحافی ظاہر شاہ آفریدی سے ڈوئچے ویلے نے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا: ’’جمرود میں اس نوعیت کا یہ پہلا واقعہ ہے، جہاں کئی ملکی اور غیر ملکی این جی اوز کام کررہی ہیں لیکن کسی کو نہ تو کسی عسکریت پسند گروپ نے دھمکی دی اور نہ ہی کسی کو کام کرنے سے روکا لیکن خواتین میں آگاہی کے بارے میں فریدہ واحد خاتوں تھی جو نہ صرف کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے بارے میں خواتین کو تعلیم فراہم کر رہی تھیں بلکہ گھریلو تشدد اور خواتین کے حقوق کے بارے میں ملکی اور بین الااقوامی تنظیموں کے تعاون سے سرگرم عمل تھی، انہیں کئی مرتبہ کالعدم تنظیموں کی جانب سے دستکاری،کمپیوٹر سینٹرز اور دیگر ادارے بند کرنے کی دھمکیاں ملی تھی تاہم انہوں نے پرواہ نہ کی۔‘‘
صوبہ خیبر پختونخوا اور اس سے ملحق قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے باوجود بعض خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کررہی ہیں۔ کئی خواتین کو دھمکیاں بھی ملتی ہیں تاہم فریدہ کی طرح وہ بھی ان کی پرواہ نہیں کرتیں۔ دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کا گڑھ تصور کئے جانے والے علاقے ضلع دیر سے تعلق رکھنے والی شاد بیگم کو 10مارچ کو امریکا کی خاتون اول میشل اوباما نے علاقے میں خواتین کی تعلیم اور صحت کے لیے دلیری سے کام کرنے پر بین الااقوامی ایوارڈ سے نوازا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں سمیت پشاور میں بھی امن کے قیام اور عسکریت پسندوں کے خلاف کام کرنے والوں کو نشانہ بنانے کے سلسلے میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے ۔ ٹارگٹِڈ کلنگ کا یہ سلسلہ خیبر ایجنسی میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن میں تیزی لانے کے بعد بڑھا ہے۔ 27 جون کوپشاور کے نواحی علاقے متنی کے سابق ناظم اور امن لشکر کے سربراہ فہیم خان کو ان کے تین ساتھیوں سمیت اغوا کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔ اس سے قبل 18مئی کو پشاور پولیس کو ورسک روڈ پر تین افراد کی لاشیں ملی جن میں دو کا تعلق پنجاب سے تھا ۔
رپورٹ: فریداللہ خان، پشاور
ادارت: ندیم گِل