پاکستانی متاثرین سیلاب کی امداد کے لیے ایک بار پھر اپیل
28 جولائی 2011پاکستانی سیلاب زدگان کے لئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے خصوصی نمائندے رؤف اینجن سوسیل نے کہا کہ اقوام متحدہ کی 1.9 ارب ڈالر امداد کی اپیل کا ابھی بھی 30 فیصد ملنا باقی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اس صورتحال کا مقابلہ تنہا نہیں کر سکتا بلکہ اس کے لیے بین الاقوامی برادری کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
اقوام متحدہ کے پاکستان میں ہیومینیٹیرین کوآرڈی نیٹر منگیشا کبیدے کا کہنا ہے کہ بحالی اور تعمیر نو کے کاموں کے لیے درکار رقم اگر بروقت مل جائے تو متاثرین کی حالت سدھر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا: ’’امدادی رقم کے حصول میں اب بھی فرق موجود ہے لیکن مجموعی طور پر کارکردگی بہتر ہے، ایمانداری کی بات ہے کہ مزید وسائل سے کارکردگی اور بھی بہتر ہو سکتی ہے۔‘‘
اس موقع پر ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ترقی کے سربراہ توشی ہیرو نے کہا کہ پاکستانی متاثرین سیلاب کی بحالی کے لئے اقتصادی اور سماجی ترقی کے حوالے سے متعدد اقدامات درکار ہیں انہوں نے کہا:’’خصوصاً اٹھارویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد جس کے تحت اختیارات اور ذمہ داریاں صوبوں کو منتقل کی گئی ہیں۔ ہمارے خیال میں صوبائی اور مقامی حکومتوں کو بہتر انداز میں اہداف حاصل کرنے کے لئے اپنی استعداد بڑھانے کی ضرورت ہے۔‘‘
امدادی اداروں کی پریس کانفرنس میں موجود قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے (این ڈی ایم اے) کے چیئرمین ظفر قادر نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ پاکستانی ادارے آئندہ سیلاب جیسی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ماضی کی نسبت پاکستانی ادارے کسی بھی ناگہانی آفت سے نمٹنے کے لئے اب زیادہ مستعد ہیں۔ سیلاب میں امدادی کاموں سے منسلک سرکاری اداروں میں کرپشن کے بارے میں ایک سوال پر ظفر قادر نے کہا کہ حکومت کی طرف سے خرچ کی گئی رقم کا مکمل ریکارڈ موجود ہے۔ البتہ انہوں نے دعویٰ کیا کہ امدادی ادارے انہیں ابھی تک سیلاب زدگان پر خرچ کی گئی رقم کا مکمل حساب نہیں دے سکے۔ انہوں نے کہا: ’’ہم تمام پارٹنرز، انٹرنیشنل اداروں اور اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کو بارہا کہہ چکے ہیں کہ آپ نے اس سیلاب کی اپیل کے حوالے سے جتنا پیسہ اکٹھا کیا پاکستان کے نام پر وہ ہمیں بتائیں۔ جتنا پیسہ خرچ ہوا اس کے بارے میں بتائیں اور یقین کریں کہ اب تک ملنے والی 1.3 ارب ڈالر امداد کی رقم کو دستاویزی شکل نہیں دی گئی یہی وجہ ہے کہ ہمیں ڈیٹا اکٹھا کرنے میں مشکل ہو رہی ہے۔‘‘
ادھر آکسفیم کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ بہتری کے حکومتی دعوؤں کے باوجود اب بھی سندھ اور پنجاب کے جن دیہاتوں میں نچلے درجے کا سیلاب آیا ہے وہاں پر لوگوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے اور وہ بروقت امداد نہ ہونے کے سبب بے بسی کا شکار ہیں۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: افسر اعوان