1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی مسیحیوں کے لیے ایک ’سیاہ کرسمس‘

26 دسمبر 2012

مسلم اکثریت کے ملک پاکستان میں بسنے والے مسیحیوں نے خوف اور مقدمات کے خطرے کے ساتھ ساتھ معاشی اور سماجی تفاوتوں کے گھنیرے سایوں میں کرسمس کا تہوار منایا۔ سن 2012ء پاکستانی مسیحیوں کے لیے ایک بدترین برس رہا۔

https://p.dw.com/p/178yu
تصویر: AP

تقریبا 180 ملین آبادی کے حامل پاکستان میں مسیحیوں کا تناسب دو فیصد کے لگ بھگ بنتا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق اسلامی جمہوریہ پاکستان میں دوسری اقلیتوں کی طرح مسیحیوں کو قانونی اور ثقافتی تفریق کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق سن 2012ء پاکستانی مسیحیوں کے لیے بدترین سال تھا، جہاں کئی افراد کو توہینِ مذہب و رسالت کے الزامات کے تحت مقدمات کا سامنا کرنا پڑا، ان کے گرجا گھروں کو آگ لگائی گئی اور ان کے گھر لوٹ لیے گئے۔

Pakistan Christen Rimsha Mädchen
رمشا مسیح کے حق میں مظاہرے کرنے والے پاکستانی مسیحی شہریتصویر: picture alliance / dpa

پاکستان میں توہینِ مذہب و رسالت ایک انتہائی حساس موضوع ہے، جہاں 97 فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ اس بابت متنازعہ قوانین 80ء کی دہائی میں فوجی آمر جنرل ضیاء الحق نے متعارف کروائے تھے، جن کے باعث مسیحیوں کی زندگیاں مزید مشکلات میں گھر گئیں۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق ان قوانین کا تعلق توہین مذہب اور توہین رسالت سے تو کم ہے، مگر زیادہ تر یہ قوانین ذاتی جھگڑوں اور باہمی چپقلش کے معاملات میں استعمال کیے جاتے ہیں اور ان کا عمومی نشانہ مسیحی بھی بنتے ہیں۔

توہین مذہب و رسالت کے قوانین کے زیرِ سایہ زندگی

رواں برس اگست کی 16 تاریخ کو ایک مسیحی بچی رمشا مسیح، جس کی عمر 10 سے 14 برسوں کے درمیان بتائی جاتی ہے، اس قانون کے شکنجے میں آئی۔ اس بچی پر مقامی امام مسجد کی جانب سے قرآنی اورق جلانے کا الزام عائد کیا گیا۔ اس الزام کے فورا بعد پولیس نے رمشا مسیح کو حراست میں لے لیا۔

پاکستانی حکام نے بتایا کہ یہ بچی ڈاؤنز سینڈروم جیسی ذہنی بیماری کا شکار ہے۔ مغربی ممالک کی جانب سے رمشا مسیح کی گرفتاری پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا۔ بعد میں رمشا مسیح پر عائد یہ الزام مکمل طور پر بے بنیاد ثابت ہوا جبکہ انسانی حقوق سے وابستہ افراد اور مغربی حکومتوں کی جانب سے متعدد مظاہروں اور کے بعد پاکستانی عدالت نے اس بچی کی رہائی کے احکامات جاری کیے۔

تاہم آسیہ بی بی کی قسمت ایسی نہ تھی۔ ایک غریب کسان کی بیوی آسیہ بی بی کو ایک ہمسایہ کی جانب سے توہین رسالت کے الزام پر حراست میں لیا گیا اور سن 2010ء میں اسے اس جرم میں سزائے موت سنا دی گئی۔ وہ اب بھی ایک مقامی جیل میں قید ہے۔ آسیہ بی بی کے حق میں آواز اٹھانے والے اعتدال پسند پاکستانی بھی اسلامی انتہاپسندوں سے بچ نہ پائے۔

آسیہ بی بی کو سزائے موت سنائے جانے کے کچھ عرصے بعد پاکستانی صوبہ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو ان کے اپنے محافظ ممتاز قادری نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔ قادری کا کہنا تھا کہ انہوں نے تاثیر کو توہین رسالت کے قوانین کے خلاف آواز اٹھانے اور آسیہ بی بی کی حمایت کرنے پر ہلاک کیا۔ مارچ 2011ء پاکستانی وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی کو بھی مذہبی انتہاپسندوں نے حملہ کر کے ہلاک کر دیا۔

Blasphemie Gesetz in Pakistan FLASH Galerie
صوبہ پنجاب کے گورنر نے آسیہ بی بی سے ملاقات کے بعد ان متنازعہ قوانین میں ترامیم پر زور دیا تھاتصویر: AP

قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے سینٹر فار ویمنز اسٹڈیز سے وابستہ فرزانہ باری کا کہنا ہے کہ ملک میں ان متنازعہ قوانین میں اصلاحات نہ کی گئیں، تو معاشرے میں اقلیتوں کے خلاف موجود یہ تفریق قائم رہے گی۔ فرزانہ باری کے مطابق ’’حکومت کے پاس موقع ہے کہ وہ توہین مذہب سے متعلق ان قوانین میں اصلاحات کرے۔ یہ قوانین تو اسلام کی روح کے بھی منافی ہیں اور ان سے ملک کی بدنامی ہو رہی ہے۔‘‘

سلمان تاثیر اور شہباز بھٹی کی ہلاکت کے بعد صدر زرداری کی پاکستان پیپلز پارٹی کو مقامی اور بین الاقوامی حقوق انسانی کی تنظیموں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایاگیا کہ حکومت ان قوانین میں اصلاحات کرنے میں ناکام رہی ہے۔ تاہم کراچی سے تعلق رکھنے والے صحافی محسن سعید اس معاملے میں صرف حکومت کو مورد الزام نہیں ٹھہراتے۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں ان کا کہنا تھا کہ اسلامی انتہا پسندی جو کبھی معاشرے کا ایک چھوٹا سا حصہ ہوتا تھا، اب معاشرے کا عمومی دھارا بن چکا ہے۔

محسن سعید کہتے ہیں ’’وہ دن گئے، جب ہم یہ کہہ دیا کرتے تھے کہ یہ مذہبی انتہاپسند، خوفزدہ کر دینے والے، نفرت کا پرچار کرنے والے اور مذہبی عصبیت جیسے جرائم میں ملوث افراد ایک چھوٹا سا گروہ ہیں۔ اب یہ زہر پورے پاکستانی معاشرے میں سرایت کر چکا ہے۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ اب ایسے ’ظالمانہ جرائم‘ کی مذمت کرنے والے پاکستانی معاشرے میں اقلیت بن چکے ہیں۔ محسن سعید نے پاکستان عدلیہ کو بھی دائیں بازو کے افراد سے ہمدردی کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔’’آسیہ بی بی اب بھی جیل میں ہے اور قادری (سلمان تاثیر کا قاتل) اب بھی زندہ ہے۔‘‘

خوف میں زندگی

پاکستان میں اسلامی انتہاپسندی اور مذہبی عدم برداشت پنپنے سے قبل، مسیحی پورے جوش و جذبے سے کرسمس کا تہوار منایا کرتے تھے۔ وہ اپنے گھروں کے باہر روشن ستارے لگاتے تھے، اپنے علاقوں کو روشنیوں اور جھنڈوں سے سجاتے تھے، مگر اب وہ خطرات مول لینے کو تیار نہیں۔ گلیوں کی صفائی کا کام کرنے والے اشرف مسیح نے خبر رساں ادارے AFP سے کہا، ’ہم خوفزدہ ہیں۔ ہم ڈرے ہوئے ہیں۔ ہم اکٹھے بیٹھ نہیں سکتے۔ ہم اونچا بول نہیں سکتے۔ ہم کھل کر جشن نہیں منا سکتے۔ ہمیں دھمکیاں ملتی ہیں۔‘ انہوں نے مزید کہا، ’اگر ہم مل بیٹھیں، بات چیت کریں، تو اچانک ہمارا مسلمان مالک مکان یہ کہتا ہوا آ دھمکتا ہے کہ تم یہاں کیوں بیٹھے ہو اور کیا بات چیت کر رہے ہو۔‘ مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے 37 سالہ مالی اسلم مسیح نے AFP کو بتایا، ’پہلے ہم کرسمس کا تہوار علاقے کے چرچ میں مناتے تھے، مگر اب وہ گرجا گھر بند ہو چکا ہے۔‘

گرجا گھروں پر حملے

مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کی عبادت گاہیں کو اہداف بنانے کے رجحان میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ حملہ آوروں میں اب صرف انتہاپسند ہی ملوث نہیں ہوتے بلکہ عام پاکستانی بھی پیش پیش دکھائی دیتے ہیں۔

انڈیپینڈنٹ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کراچی میں مقیم سینئیر عہدیدار عبدالحی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، ’اقلیتوں پر حملے کے درپردہ متعدد معاشی وجوہات ہوتی ہیں، تاہم مندروں اور گرجاگھروں پر حملے میں زیادہ تر مذہبی وجوہات کارفرما دکھائی دیتی ہیں۔ عبدالحی کا کہنا ہے ’’پاکستان میں مذہبی انتہاپسندی بڑھ رہی ہے اور انتہاپسند گروہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتے جا رہے ہیں۔ بدقسمتی سے حکومت اقلتیوں اور ان کی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم کرنے میں کوشاں دکھائی نہیں دیتی۔‘‘

مسیحیوں اور ان کی عبادت گاہوں پر خونریز حملوں میں سن 2009ء میں پنجاب کے شہر گوجرہ میں ایک چرچ پر حملہ سرفہرست ہے، جہاں مسلمانوں نے مسیحیوں کے 70 مکانات اور کئی گرجاگھر نذرآتش کر ڈالے جبکہ اس واقعے میں سات افراد ہلاک ہوئے۔ ان تمام واقعات کی وجہ ایک افواہ تھی کہ قرآن کی بے حرمتی ہوئی ہے۔

Shamil Shams, at/ Sarah Berning, ah