کیا غیر ملکی مصنوعات کا استعمال ترک کرنا مسئلے کا حل ہے؟
21 مئی 2019اس معاملے پر ڈی ڈبلیو نے ماہر تجارت ڈاکٹر شجاعت مبارک سے بات کی ہے اور ان سے مختلف سوالات کیے۔
کیا ڈالر کے بائیکاٹ سے مسئلے پر قابو پایا جاسکتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں ماہر تجارت ڈاکٹر شجاعت مبارک کا کہنا تھا، ’’آئندہ دو ماہ پاکستانی معیشت کے لیے بہت سنگین ہوں گے۔ روز مرہ استعمال کی اشیاء کا عمل دخل اتنا زیادہ نہیں ہے۔‘‘ اہم وجوہات پر بات کرتے ہوئے مبارک نے کہا کہ پاکستان بڑی تعداد میں زرعی مشینری اور وافر مقدار میں انسولین اور دیگر ’life saving drugs‘ بیرون ممالک سے خریدتا ہے۔
مزید وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’عوام اگر درآمد شدہ مصنوعات کے استعمال کا بائیکاٹ کر بھی لیں تو فائدہ اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک حکومت معاشی پالیسیوں کی درستگی کا نہ سوچے۔‘‘
ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر شجاعت مبارک کا کہنا تھا، ’’سب سے پہلے تو درآمدات اور برآمدات کے درمیان فرق بہت بڑھ گیا ہے۔ موجودہ صورت حال میں برآمدات میں کمی ضرور آئی ہے مگر قدرتی آفات کی وجہ سے ماضی میں بہت زیادہ درآمدات کا رجحان دیکھا گیا جس کی ضرورت بھی تھی۔ لیکن ان درآمدات سے معیشت کی کمر ابھی تک سیدھی نہیں ہو پائی۔ ڈالر کی بڑھتی قیمت کی دوسری وجہ یہ ہے کہ سرکار کی ساری توجہ CPEC منصوبے پر ہے، جس کی وجہ سے باقی اہم خریدو فروخت نظر انداز ہوئی ہے۔ تیسری وجہ بیرون ملک قرضوں کی ادائیگی ہے۔ پاکستان نے خاصہ حساب چکانا ہے جس پر حکومت نے قرض لینے کا فیصلہ کیا۔ یہ اقدام بھی معیشت کے حق میں نہیں گیا۔ چوتھی اور اہم وجہ یہ بھی ہے کہ روپے کی قدر کم ہونے کےخوف سے عوام نے ڈالر خریدنا شروع کردیا۔جس سے مسائل بڑھ گئے۔‘‘
ماہر اقتصادیات ہونے کے ناطے مستقبل کی پیشگوئی کرتے ہوئے ڈاکٹر شجاعت نے کہا، ’’آنے والے بجٹ تک عین ممکن ہے کہ ڈالر 156 پاکستانی روپے تک جا پہنچے۔ پاکستان کی جانب سے IMF کی پہلی قسط کے بعد ڈالر کی اس پرواز کوفل اسٹاپ ضرور لگے گا مگر وہ عارضی ہوگا۔‘‘
پاکستانی روپیہ اس نہج تک پہنچا کیسے؟
اس بات کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس کا سہرا پچھلی حکومت کے سر ہے۔ پچھلی حکومت مسئلے کے حل کے لیے مصنوعی طریقہ کار 'artificial mechanism' کا سہارا لیتی رہی اور ڈالر کی قیمت بڑھتی رہی۔ موجودہ حکومت نے جب 'free mechanism' کا طریقہ اپنایا جو کہ معاشی اعتبار سے درست ہے تو موجودہ صورت حال کے ساتھ ساتھ ماضی کی غیر سنجیدہ پالیسیوں سے بھی نبرد آزما ہونا پڑا۔‘‘
ڈالر کی قیمت کہاں تک جائے گی اس کے جواب میں ڈاکٹر شجاعت مبارک نےکہا، ’’اگر صورت حال یہی رہی اور حکومت نے ٹھوس اقدامات نہ کئے تو ڈالر اس سال دسمبر تک 165 سے 175 پاکستانی روپے تک جاسکتا ہے۔‘‘
پاکستان کے معاشی مسائل حل کیسے ہوں گے؟
ڈاکٹر شجاعت کی رائے میں اس مقصد کے لیے، ’’پاکستانی حکومت کو اپنی برآمدات کو بڑھانا ہوگا۔ جبکہ عوام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان جگہوں سے روز مرہ اشیاء خریدیں جو باقاعدگی سے حکومت کو ٹیکس ادا کرتی ہیں۔ ساتھ ہی حکومت کو اپنی معاشی سمت کا تعین کرنا ہوگا اور جلد اقدامات لینا ہوں گے۔‘‘
ماہر معاشیات ڈاکٹر شجاعت مبارک نے مزید بتایا، ’’اگلے دو ماہ میں مہنگائی کا طوفان آنے والا ہے۔ ایک جانب حکومت شرح مہنگائی یعنی (discount rate) بڑھاتی جا رہی ہے تو دوسری جانب افراط زر (Inflation) بھی بڑھ رہا ہے۔ جس کی وجہ سے معیشت اپنے بُرے دور سے گزر رہی ہے۔ یا تو حکومت شرح مہنگائی کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ عوام کو ریلیف دے تاکہ عوام مہنگائی سے کچھ بچ سکیں۔‘‘