1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی مہاجرين بوسنيا و کروشيا کی سرحد پر بے يار و مددگار

24 اکتوبر 2018

بوسنيا کی پوليس نے تقريباً ڈھائی سو تارکین وطن کی اپنے پڑوسی اور يورپی يونين کے رکن ملک کروشيا کی سرحد تک رسائی روک دی، جس کے نتيجے ميں پوليس اہلکاروں اور حکام کے مابين تصادم کی اطلاعات ہيں۔

https://p.dw.com/p/377Wd
Gewalt gegen Flüchtlinge durch kroatische Grenzpolizei
تصویر: Infomigrants/N. Ahmadi

مقامی پوليس کی ترجمان سنيزانہ گالچ نے بتايا، ’’تارکين وطن نے زور زبردستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سرحد پار کرنے کی کوشش کی اور پوليس نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے انہيں روکا۔ جائے وقوعہ پر تصادم بھی ہوا۔‘‘ يہ واقعہ مالجيواچ کی سرحدی چوکی کے پاس تيئس اکتوبر کے روز پيش آيا، جہاں تقريباً ايک سو پوليس اہلکار تعينات تھے۔ تصادم ميں کسی کے زخمی ہونے کی کوئی اطلاع نہيں ہے۔ البتہ منگل اور بدھ کی درميانی رات اور بدھ کی سہ پہر تک موصولہ رپورٹوں کے مطابق بوسنيا کے شمال مغربی سرحدی علاقے ميں وليکا کلاڈوسا کے شہر کے قريب تقريباً ايک سو مہاجرين خيموں ميں موجود ہيں اور وہ وہاں سے ہٹنا نہيں چاہتے۔

اس خطے ميں ہزارہا مہاجرين پچھلے کئی ماہ سے ڈيرہ ڈالے ہوئے ہيں۔ يہ تارکين وطن مغربی يورپ کی طرف ہجرت کرنا چاہتے ہيں۔ ان کی اکثريت کا تعلق پاکستان اور افغانستان سے ہے تاہم ان کی صفوں ميں ايرانی، شامی اور الجزائری بھی شامل ہيں۔ علاقے ميں پوليس کی مسلسل موجودگی کے سبب کئی ہمت ہار کر واپس جا چکے ہيں، تاہم ہزاروں اب بھی وہيں موجود ہيں۔

ماضی ميں مہاجرين بوسنيا کے پہاڑی سلسلے سے گزرنے والے دشوار گزار راستے سے ہجرت کو ترجيح نہيں ديتے تھے تاہم اس سال کے آغاز سے يہ راستہ ايک نئے روٹ کے طور پر ابھرا ہے۔

دريں اثناء انسانی حقوق کے ليے سرگرم تنظيموں کا کہنا ہے کہ بوسنيا ميں مہاجرين کو مناسب انداز سے سہوليات فراہم نہيں کی جا رہيں۔ زيادہ تر تارکين وطن ملک کے شمال مغربی حصے ميں ہيں، جہاں اب تک ايک باقاعدہ استقبالیہ مرکز نہيں ہے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين يو اين ايچ سی آر نے خبردار کيا ہے کہ موسم سرما کی آمد سے قبل وہاں باقاعدہ مہاجر کيمپوں کی سخت ضرورت ہے۔

ع س / ع ت، نيوز ايجنسياں