1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی نوجوان اپنی شناخت کی تلاش میں

23 ستمبر 2020

اردو ادب کے معروف مزاح نگار اور شاعر ابن انشاء نے ایک مرتبہ کہ تھا کہ پاکستان کے چار صوبے ہیں، اس میں پاکستان خود کہاں واقع ہے؟ اس کی کھوج ابھی جاری ہے۔

https://p.dw.com/p/3irwl
DW Urdu Blogerin Tahira Syed
تصویر: Privat

فرقہ پرستی اور نسل پرستی پر مزاح کے پیرائے میں کیا گیا یہ طنز گو کہ کئی سال پرانا ہے لیکن ان الفاظ کا درد آج کے دور میں زیادہ شدت سے محسوس ہوتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرا ہی تھا کہ طوفانوں نے اس گھر کا راستہ دیکھ لیا۔ کمزور معاشی حالات اور سیاسی غیر یقینی کے باوجود بھی یہ ملک کسی نہ کسی طرح سات دہائیوں سے 22 کروڑ لوگوں کا گھر کہلاتا ہے۔

کراچی کی شہری ہونے کے ناتے میں ان واقعات کی عینی گواہ ہوں کہ جب فریقین کے درمیان کشیدگی کی آگ نے میرے شہر کو نذر آتش کیا۔ میرے کانوں نے بھوک اور افلاس سے روتے بلکتے بچوں کی صدائیں اس ہوا میں گونجتی سنیں۔ اس دل پر وہ بار گراں وقت بھی گزرا کہ جب جوان بچوں کی ماؤں کے نوحے اس شہر کی فضا میں گونجے تو پورا شہر اشک بار ہو گیا۔ جب معصوم بچوں کے چہروں پر خوف کے سائے لرزاں ہوئے اور ان کی آنکھوں نے ہر گزرتے شخص سے یہ سوال کیا کہ ان کو یتیم کرنے کا ذمہ دار آخرکون ہے؟

اس ملک کی تاریخ میں کبھی ایک وقت وہ بھی گزر چکا ہے کہ جب تمام پاکستانیوں کے دل حب الوطنی کے جذبات سے لبریز تھے۔ گلیوں اور بازاروں میں حب الوطنی کے مظاہرے جابجا دیکھے جا سکتے تھے۔ لیکن پھر ایک ایسی خزاں کی ہوا چلی کہ حب الوطنی کے جذبات پر ایک گرد سی پڑتی گئی اور فرقہ پرستی نے ڈیرے ڈال لیے۔ سریلے رسیلے قومی نغموں کے سر لوگوں کی چیخ و پکار میں دب سے گئے۔ بے گناہ عوام کبھی سیاسی چپقلش کا نشانہ بنے تو کبھی مذہبی اختلافات کی نذر ہوئے۔

 بچے کچھے لوگ بےروزگاری کے ہاتھوں پریشان ہوئے اور بھوک و افلاس کی دلدل میں دھنستے گئے۔ ساتھ ہی بدعنوانی کا ایسا وائرس پھیلا کہ پورا ملک اس کی لپیٹ میں آ گیا۔ جس کا جتنا زور لگا اتنا مال جمع کیا۔ اخلاقی اقدار بدلتی گئیں۔ انسانوں نے انسان کو چھوڑ کر مشینوں کے ساتھ زندگی گزارنے کو ترجیح دی۔ لوگوں کے رویے اور معاشرے کی روایات تبدیل ہوتی گئیں۔ معتبر ہونے کی نشانی روپیہ پیسہ ٹھہرا اور چڑھتے سورج کی پوجا ہمارا چلن طے پایا۔ سادگی اور انسانیت کہیں گم ہوگئی۔

ادیبوں، شاعروں مفکروں سبھی نے معاشرے کے بدلتے رویوں کی طرف توجہ دلائی۔ وقت کا پہیہ گھومتا رہا اور تمام عظیم شخصیتیں اپنے فن اور ادب کے ساتھ ہی زمین میں دفن ہوتی گئیں۔ کسی بھی معاشرے کا ادب ہی اس کی شناخت بنتا ہے اور جب اسے بھلا دیا جائے تو آنے والی نسل شناختی بحران کا شکار ہو کر دوسرے معاشروں میں اپنی شناخت ڈھونڈتی پھرتی ہے۔

معاشرے میں بڑھتی ہوئی بد عنوانی اور نسل پرستی کا رجحان نئی نسل کو اپنے ملک سے برگشتہ کر دیتے ہیں اور وہ ان معاشروں کے دلدادہ ہوتے جاتے ہیں، جہاں انہیں ہر طرح کی آزادی میسر ہو، روزگار کے مواقع موجود ہوں اور بدعنوانی سے واسطہ نہ پڑے۔ لہذا اپنے خوابوں کی جنت میں زندگی گزارنے کے لئے ہمارے ذہین ترین دماغ دوسرے ممالک کا رخ کرتے ہیں اور ہمارا اپنا ملک ہنرمند افراد سے محروم ہوتا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

سرکاری رازداری قانون، جمہوریت پر لٹکتی تلوار ہے

ضمیر اختر نقوی: مجنوں جو مرگیا ہے تو جنگل اداس ہے

بچے کچھے افراد اپنی عملی زندگی میں ہزار ہا مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ بمشکل تعلیم کے حصول کے بعد روزگار کے لئے سرگرداں ہوتے ہوتے بلآخر کسی نہ کسی فرقے یا گروہ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ یہ عمل نہ صرف ہماری جبلت کی تسکین کا باعث ہوتا ہے بلکہ اپنی زندگی کو کسی مقصد سے جوڑنے کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔ لیکن یہ مقصد چونکہ ہمیں اس گروہ سے جڑنے سے حاصل ہوا لہذہ صحیح بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی۔

ہمارے ملک کے خصوصاً وہ علاقے جہاں حکومتی مشنری اپنی کارکردگی نہیں دکھا پائی دشمن کے لیے ایک آسان شکار ثابت ہوتے ہیں۔ ایسے علاقوں میں ملک کے خلاف جذبات پیدا کرنا نہایت آسان ہوتا ہے۔ عوام کو اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنے کا جھانسہ دے کر ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث کرنا دشمن کا ایک آسان ہتھیار ہے۔ ظاہر ہے کہ جب حکومت اپنے مقصد میں ناکام ہو جائے تو دشمن کے لئے نہایت آسان ہوتا ہے کہ وہ ملک کو کمزور کرنے کے لیے خارجی دباؤ کے ساتھ ساتھ اندرونی طور پر بھی ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے لیے اسی ملک کی عوام کو استعمال کرے۔

آج یہ ملک خداداد ایک ایسے دور سے گزر رہا ہے کہ جہاں قومی شناخت کا شدید بحران ہے۔ سب کسی نہ کسی طور پر اپنی بات منوانے یا چھپانے میں مصروف ہیں۔ کچھ گروہ حکومت کمزور کرنے تو کچھ اپنے حقوق کے حصول کے لیے قانونی غیر قانونی طریقہ کار استعمال کرنے میں خود کو حق بجانب سمجھتے ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ موجودہ حکومتی نمائندے خان صاحب کے نظریے پر مکمل طور پر عملدرآمد کرتے نظر نہیں آتے اور عوام میں مایوسی اور بے چینی بڑھانے کا ذریعہ ثابت ہو رہے ہیں ۔

نوم چومسکی نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا تھا کہ دنیا اس وقت ایک انتہائی خطرناک دور سے گزر رہی ہے۔ ایٹمی جنگ، آمریت اور موسمیاتی تبدیلیاں کرہ ارض کے لئے تین بڑے خطرات ہیں۔ نوم چومسکی کے بیان کردہ خطرات کے سائے اس وقت سب سے زیادہ ہمیں پاکستان میں منڈلاتے نظر آتے ہیں۔ ایک طرف تو کشمیر نیوکلیئر فلیش پوائنٹ بنا ہوا ہے تو دوسری طرف ملک دو سیاسی دھڑوں میں بٹ کر رہ گیا ہے۔ اور اگر بات کی جائے موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصانات کی تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں حالیہ بارشوں سے ہونے والی تباہی تو شاید اس فلم کا صرف ایک ٹریلر ہے، جو کہ آنے والا سال اپنے ساتھ لے کر آسکتا ہے۔

 ان تمام مشکلات اور خطرات کے ہوتے ہوئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے پالیسی ساز ادارے نہایت دلجمعی سے قومی یکجہتی اور قومی وحدت کو اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ عوام میں پھیلی مایوسی اور محرومی کے جذبات کو ختم کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں۔ بصورت دیگر بڑھتے ہوئے اندرونی اور بیرونی خطرات اس ملک کی پہلے سے کھوکھلی جڑوں کے لیے شدید مشکلات کا باعث بن سکتے ہیں۔

 اس کے ساتھ ساتھ اس دور میں ادیبوں اور دانشوروں پر بھی یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنے سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آنے والی نسل کو اس ملک سے جوڑے رکھنے اور اس ملک میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے پر کام کیا جائے۔ ہمارے ملک کا عظیم سرمایہ ہماری نئی نسل اس ملک کی رگوں میں دوڑتے نئے اور جوان خون کی مانند ہے، جس کی محبت اس ملک کی بڑھوتری کے لیے نوید جان فزا ثابت ہو سکتی ہے۔