1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی پارلیمنٹ میں خواتین کی کم نمائندگی: اسباب کیا ہیں؟

عبدالستار، اسلام آباد
8 مارچ 2019

خواتین کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان میں پارلیمنٹ، فوج اور بیوروکریسی سمیت زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کی نمائندگی بڑھانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/3Egdc
Parlamentsgbäude in Islamabad Pakistan
تصویر: AP

آج ملک کے طول و عرض پر خواتین کے حقوق کے حوالے سے ریلیاں اور جلوس نکالے گئے، جب کہ ملک کے کئی حصوں میں متعدد کانفرنس اور سیمینار کا انعقاد بھی کیا گیا۔ لیکن خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیمیں اور سیاسی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ جب تک خواتین کی پارلیمنٹ میں نمائندگی نہیں بڑھے گی، ان کے مسائل میں کوئی نمایاں کمی نہیں ہوگی۔ اس کے علاوہ مسلح افواج اور نوکر شاہی میں بھی نمائندگی بڑھنی چاہیے۔
واضح رہے کہ اس وقت پاکستان کی مجلسِ شوری میں خواتین کی تعداد بیس فیصد ہے۔ جب کہ آبادی میں ان کی شرح 48.76  فیصد ہے۔ سیاسی جماعتوں کے خیال میں اس نمائندگی میں اضافے کی اشد ضرورت ہے۔ مسلم لیگ ن کی رہنما سینیٹر نزہت صادق کا کہنا ہے کہ خواتین کی نمائندگی نہ صرف پارلیمنٹ میں بڑھنی چاہیے بلکہ زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی ان کی نمائندگی میں اضافہ ہونا چاہیے۔ سینیٹر نزہت صادق  کے بقول، ’’خواتین کی نمائندگی ان کی آبادی میں شرح کی عکاس ہونا چاہیے لیکن اگر ان کی آبادی پچاس فیصد کے قریب ہے تو ان کی نمائندگی شاید اتنی نہ ہو سکے کیو نکہ ہم ایک پدر سری سماج میں رہے ہیں۔ ان کے خیال میں حقیقت پسندانہ بات یہ ہے کہ اگر پچاس فیصد نمائندگی کا مطالبہ کیا جائے تو شاید تیس فیصد نمائندگی ملے گی۔

Hina Rabbani Khar
تصویر: picture alliance/dpa

علاوہ ازیں تجزیہ نگاروں اور سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ جب بھی ملک میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے بات کی جاتی ہے تو دائیں بازو کی مذہبی تنظیمیں اس بات کی بھر پور مخالفت کرتی ہیں۔ ماضی میں فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں عائلی قوانین میں تبدیلی ہو یا جنرل مشرف کے دور میں بلدیات میں عورتوں کی سیاسی نمائندگی بڑھانے کی بات، زرداری کے دور میں خواتین تحفظ بل کی بات ہویا پھر اسی دور میں قانون شہادت کو ختم کرنے کی بات، ہر مرتبہ مخالفت ’مذہبی‘ حلقوں کی طرف سے آئی ہے۔ ان حلقوں نے عورت کی حکمرانی کی بھی مخالفت کی اور کھیلوں میں خواتین کی شرکت پر بھی بھر پور احتجاج کیا۔
سابق رکنِ قومی اسمبلی بشری گوہر کے خیال میں ملائیت، جاگیردارانہ سوچ اور پدر سری رویے خواتین کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ ان کے بقول، ’’ان تمام رکاوٹوں کے باوجود خواتین نے بھر پور جدوجہد کے ذریعے بلدیات میں تینتیس فیصد اور پارلیمنٹ میں سترہ فیصد نمائندگی حاصل کی۔‘‘ بشری گوہر کا مزید کہنا تھا کہ خواتین کی برابری کے لیے مضبوط سیاسی قوتِ ارادی چاہیے جو اس وقت نظر نہیں آتی۔ ان کے مطابق اگر خواتین کی سیاسی نمائندگی بڑھتی ہے تو اس کے ذریعے وہ پدر سری رویوں سے بھی لڑ سکتی ہیں اور رجعت پسند قوتوں کو شکست بھی دے سکتی ہیں۔

Pakistan Frauen auf Motorrädern
تصویر: SRU Punjab Government Pakistan

دائیں باوز کی مذہبی قوتیں خواتین کے اڑتالیس فیصد کوٹے کے خلاف ہیں۔ جمعیت علماء اسلام کے رہنما مولانا جلال الدین کا خیال ہے کہ کوٹہ مقرر کرنا غیر جمہوری ہے۔ ان کے بقول، ’’ ہمارا ملک آئین کے تابع ہے اور آئین میں جو خواتین کے حقوق یا نمائندگی ہے، وہ انہیں ملنی چاہیے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ جس طرح یورپ میں خواتین انتخابات لڑنے کے لئے آزاد ہیں اس طرح پاکستان میں بھی وہ آزاد ہیں۔ ان کے بقول، ’’پاکستانی خواتین نے دیر، بنوں اور ڈیرہ غازی خان سمیت کئی پسنماندہ علاقوں میں انتخابات لڑے ہیں۔ تو ہم کوٹے کے خلاف ہیں اور کہتے ہیں کہ خواتین انتخابات لڑیں اور آجائیں پارلیمنٹ میں۔‘‘
ناقدین کے خیال میں  پدر سری صرف پاکستان کا ہی خاصہ نہیں ہے بلکہ یہ دنیا کے کئی ممالک میں مضبوط جڑوں کے ساتھ موجود ہے۔

پاکستانی خواتین ارکان پارلیمان اور حقوق نسواں کے لیے کوشش

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں