پاکستانی پنجاب میں ڈینگی بخار، شدید سے شدید تر
15 ستمبر 2011پنجاب کے مختلف علاقوں سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ملتان، سرگودھا، شیخوپورہ، ننکانہ، راوالپنڈی، چنیوٹ، فیصل آباد اور گوجرانوالا سمیت کئی علاقوں سے ڈینگی بخار میں مبتلا مریضوں کو ہسپتالوں میں لائے جانے کی اطلاعات ملی ہیں۔ سب سے زیادہ تشویشناک صورتحال لاہور میں ہے جہاں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ڈینگی بخار سے متاثرہ افراد کی تعداد ساڑھے چار ہزار سے بھی اوپر ہو چکی ہے جبکہ غیر سرکاری حلقے اس شہر میں ڈینگی بخار کے مریضوں کی تعداد آٹھ ہزار سے بھی زائد بتا رہے ہیں۔
حکومتی مؤقف کے مطابق ڈینگی بخار سے پنجاب میں مرنے والوں کی تعداد نو جبکہ غیر سرکاری اعدادوشمار کے مطابق یہ تعداد دو درجن سے زائد ہے۔
ڈینگی بخارسے متاثر ہونے والوں میں محکمہ صحت کے قریباﹰ سو اہلکاروں کے علاوہ کئی سینئر ڈاکٹرز، اعلٰی سرکاری افسر، اعلٰی عدالتوں کے جج، امریکی قونصل خانے کے ملازمین اور چھہ چینی شہریوں سمیت متعدد غیر ملکی بھی شامل ہیں۔
ڈینگی وائرس کی وجہ سے اس وقت لاہور میں خوف و ہراس کا سماں ہے، تمام سرکاری اور نجی سکول، کالجز اور یونیورسٹیاں بند کر دی گئی ہیں۔ ہسپتالوں میں مریضوں کا رش ہے، ادویات اور مچھر بھگانے والے لوشن سمیت تمام متعلقہ اشیاکی یا تو قلت ہے یا ان کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ نے ڈینگی بخار سے نہ نمٹ سکنے پر دائر کی جانے والی ایک درخواست کی سماعت کرتے ہوئے جمعے کی صبح کو سیکرٹری صحت اور ڈی سی او لاہور کو جواب دہی کے لیے طلب کر رکھا ہے۔
حکومت پنجاب نے بھارت سے ادویات اور جرمنی سے اسپرے مشینیں منگوانے کے علاوہ سری لنکا سے ڈینگی بخارکی روک تھام کے لیے ماہرین بھی بلوا لیے ہیں۔
ایک مقامی ٹی وی چینل کے ہیلتھ رپورٹر زاہد چوہدری کہتے ہیں کہ ڈینگی بخار کے پھیلاؤ کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حکومت ابتدا میں حفاظتی اقدامات کرنے کی بجائے حقائق کوچھپاتی رہی ہے۔
محکمہ صحت پنجاب کے ایڈیشنل ڈائریکٹر ڈاکٹر اظہر مسعود بھٹی نے بتایا کہ حکومت ڈینگی بخارکی روک تھام کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے۔ ہسپتالوں میں مریضوں کے لیے خصوصی بیڈز مختص کر دیے گئےہیں اور علاج معالجے کی سہولتیں بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔ دوسری طرف گلبرگ کی ایک چھوٹی سی بستی خان کالونی کے رہائشی میدو خان نے بتایا کے اس علاقے کے سینکڑوں لوگ ڈینگی بخار کا شکار ہو چکے ہیں اور ان کے تین قریبی عزیز ڈینگی بخارکی وجہ سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان کے بقول سرکاری ہسپتالوں میں ڈینگی بخارکے مریضوں کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔ انھوں نے مزید بتایا کہ غریبوں کے اس علاقے میں ابھی تک کوئی سپرے بھی نہیں ہوا ہے۔
ادھر پنجاب حکومت کے محکمہ صحت کے اعلٰی افسران سری لنکن ماہرین کے ساتھ سر جوڑے بیٹھے ہیں اور انسداد ڈینگی وائرس کے لیے طویل المیعاد منصوبہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
انہی ماہرین میں سے ایک پروفیسر یعقوب قاضی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ پچھلے تیس سالوں سے ڈینگی بخار کا مقابلہ کرنے والے سری لنکا کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لیے کوئی شارٹ کٹ میسر نہیں ہے۔ انھوں نے ڈینگی بخار سے شدید طور پر متاثرہ لوگوں کے علاج کے لیے اپنے تجربات سے آگاہ کرنے کے علاوہ پنجاب حکومت کو زندگی بچانے والی ادویات بھی فراہم کی ہیں۔
رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور
ادارت: افسر اعوان