پاکستانی کرنسی کی تنزلی، ڈالر ایک سو تیس روپے سے بھی اوپر
21 جولائی 2018رواں ماہ سولہ جولائی کو اچانک ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں پونے سات روپے کی کمی ریکارڈ کی گئی اور انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر پاکستان کی مالیاتی تاریخ میں پہلی بار ایک سو اٹھائیس روپے سے تجاوز کرگیا۔ اس طرح پاکستانی روپے کی بے قدری اتنی زیادہ ہو گئی کہ وہ بنگلہ دیشی اور افغان کرنسی سے بھی نیچے آ گیا۔ اس وقت کابل میں ایک امریکی ڈالر ستر افغانی کا اور ڈھاکا میں ایک امریکی ڈالر چوراسی اعشاریہ تین ٹکا کے برابر ہے لیکن پاکستان میں امریکی ڈالر کی قیمت ایک سو تیس روپے پچاس پیسے تک پہنچ گئی ہے۔
نگراں وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے کراچی میں قائم پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں تاجروں سے خطاب کرتے ہوئے حال ہی میں کہا تھا، ’’ڈالر کی قیمت کو بڑھنے سے نہیں روکا جاسکتا۔ کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی طلب اور رسد کی بنیاد پر شرح تبادلہ کا تعین ہو رہا ہے۔ ایسے میں ہم مداخلت کر کے پاکستانی روپے کو مصنوعی سہارا نہیں دے سکتے۔‘‘
ڈاکٹر شمشاد اختر نے روپے کی قدر میں کمی کا ذمہ دار پاکستان کے بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے کو قرار دیا تھا، جو 37 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ انہوں نے منرل واٹر، دودھ، دہی، مکھن سمیت غیر ضروری اشیاء کی درآمد پر پابندی اور ٹیکسوں کی شرح میں اضافے کی سفارش بھی کی تھی۔
ماہرین کے مطابق راتوں رات امریکی ڈالر کی قدر میں اضافہ پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے نیا نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی گزشتہ سال دسمبر میں امریکی ڈالر چار روپے مہنگا ہو گیا تھا جبکہ رواں سال جنوری اور مارچ میں بھی امریکی کرنسی کی قدر میں دو بار پانچ پانچ روپے اضافہ دیکھا گیا تھا۔ پھر سولہ جولائی کو ایک بار پھر روپے کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں 6.75 روپے کی کمی ہوئی، یعنی رواں سال ڈالر کی قدر میں 22 سے لے کر 24 روپے تک کا مجموعی اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ یوں پاکستان کا درآمدی بل تو بڑھے گا ہی، لیکن ساتھ ہی پاکستان کے ذمے واجب الادا غیرملکی قرضوں کے حجم میں بھی اربوں روپے کا اضافہ ہ چکا ہے۔
کراچی میں کرنسی مارکیٹ ایسوسی ایشن کے صدر اسد رضوی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’دسمبر سےاب تک ڈالر 22 روپے مہنگا ہوچکا ہے۔ ڈالر مہنگا ہونے سے ملک پر قرضوں کے بوجھ میں 1800 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔‘‘
اسد رضوی نے مزید بتایا، ’’امریکی ڈالر کی قیمت میں راتوں رات اضافہ اچانک نہیں بلکہ نگران حکومت اور اسٹیٹ بینک کی طرف سے دی گئی ڈھیل کا نتیجہ ہے۔ پاکستان کی مالی صورت حال اس قدر کمزور ہو چکی ہے کہ بین الاقوامی اداروں سے مزید قرضوں کے حصول کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ عالمی مالیاتی فنڈ سمیت تمام قرض دہندگان کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ ایکسچینج مارکیٹ میں ڈالر اور روپے کو آزاد چھوڑ دیا جائے۔ وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر کہہ چکی ہیں کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے افسران کی مدد سے قرضے کا ایک نیا پروگرام ترتیب دیا گیا ہے تاکہ آنے والی حکومت کو نئے قرضوں کے حصول میں مشکلات کا سامنا نہ ہ۔‘‘
انٹربینک ریٹ میں امریکی کرنسی کی قدر میں اضافے کے نتیجے میں اوپن مارکیٹ میں بھی ایک ہفتے کے دوران ڈالر کی قیمت میں سات سے آٹھ روپے تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جہاں اس وقت ایک ڈالر خریدنے کے لیے ایک سو تیس روپے پچاس پیسے دینا پڑ رہے ہیں۔ یوں پاکستانی کرنسی کی گرتی ہوئی قیمت سے درآمدکنندگان بھی خاصے مشکل میں دکھائی دے رہے ہیں۔
برما، سری لنکا اور دوسرے ملکوں سے دالوں کے درآمدکنندہ تاجر ہارون اگر کے مطابق، ’’جب ہم کسی ملک کے ساتھ درآمد کے لیے ایل سی کھولتے ہیں، تو ہم موجودہ قیمت پر ہی سودا کرتے ہیں۔ لیکن تھوڑی ہی دیر بعد ڈالر کی قیمت کچھ اور ہو جاتی ہے اور سودوں میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ روپے کی قیمت میں کمی کے نتیجے میں درآمدی لاگت بھی بڑھ جاتی ہے۔ ایسے میں کاروبار جاری رکھنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘
اقتصادی ماہرین امریکی کرنسی کی قیمت میں اضافے کو مستقبل قریب میں ملک میں مہنگائی کے طوفان سے تعبیر کر رہے ہیں۔ ممتاز ماہر اقتصادیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کا کہنا ہے، ’’پاکستان خام تیل سے لے کر عام استعمال کی بیشتر اشیاء تک درآمد کرتا ہے۔ جب درآمدی لاگت بڑھے گی، تو یقیناﹰ اشیاء کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگا۔ یوں مہنگائی بھی بڑھے گی۔ ڈالر کی قیمت میں حالیہ اضافے کے فوراﹰ بعد ہی درآمدی خشک دودھ، ڈائپرز، ملبوسات، موبائل فون اور گاڑیوں کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ سامنے آیا ہے۔ اس کے علاوہ خدشہ ہے کہ رہی سہی کسر بھی جلد ہی پوری ہوجائے گی۔‘‘
دوسری جانب اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا کہنا ہے کہ کرنسی مارکیٹ پر اس کی گہری نظر ہے۔ فی الحال شرح تبادلہ توقع کے عین مطابق ہے، درآمدی ادائیگیوں اور کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے کی وجہ سے مارکیٹ میں ڈالر کی طلب زیادہ ہے۔ اسی زیادہ طلب کے باعث روپیہ دباؤ کا شکار ہے۔ ان حالات میں اسٹیٹ بینک مارکیٹ میں مداخلت تو نہیں کر رہا، ا لبتہ صورت حال پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہے۔
کراچی میں غیر ملکی کرنسی کا کاروبار کرنے والے ڈیلر فیصل انور نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’رمضان کے آخری دنوں سے ڈالر کی قدر میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جس کی وجہ تجارت اور کرنٹ اکاؤنٹ میں خسارہ ہے۔ ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت کے پیش نظر لوگ اب ڈالر خرید کر رکھنے لگے ہیں تاکہ ڈالر مزید مہنگا اور روپیہ مزید سستا ہونے پر فائدہ اٹھاسکیں۔‘‘ فیصل انور نے مزید بتایا، ’’روپے کی قدر گرانے کا فیصلہ نگران حکومت اور اسٹیٹ بینک کا تھا، جس کی وجہ سے ڈالر کی قیمت کو پر لگ گئے۔ اس لیے کہ حکومت نے کرنسی مارکیٹ کو فری کر دیا تھا۔‘‘