پاکستانی ہیلی کاپٹر کا افغان طالبان کے زیر قبضہ عملہ رہا
13 اگست 2016پاکستانی دارالحکومت سے ہفتہ تیرہ اگست کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق پاکستان کے اس سرکاری ہیلی کاپٹر کو، جس میں ایک روسی شہری اور پانچ پاکستانیوں سمیت کل چھ افراد سوار تھے، چار اگست کو افغانستان میں ایک تکنیکی خرابی کے بعد اچانک کریش لینڈنگ کرنا پڑ گئی تھی۔
مشرقی افغانستان میں کریش لینڈنگ کے بعد وہاں موجود طالبان عسکریت پسندوں نے ان چھ افراد کو اپنی حراست میں لے لیا تھا۔ شروع میں یہ واضح نہیں تھا کہ یہ عملہ کہاں اور کس کی حراست میں ہے۔
افغان حکام نے تاہم چند گھنٹوں بعد کہا تھا کہ ان چھ افراد کو طالبان یرغمال بنا کر اپنے ساتھ کہیں لے گئے تھے۔
اس بارے میں پاکستانی دفتر خارجہ کے آج ہفتے کو جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا، ’’ان پانچ پاکستانیوں اور ایک روسی شہری کو کریش لینڈنگ کے بعد حراست میں لے لیا گیا تھا، جو اپنی رہائی کے بعد اب واپس اسلام آباد پہنچ چکے ہیں۔‘‘
بیان کے مطابق اس عملے کی رہائی ’پاکستانی اور افغان قبائلی رہنماؤں کی مدد‘ سے عمل میں آئی۔
پاکستانی حکام نے اگرچہ یہ نہیں بتایا کہ ان چھ افراد کو کس گروپ نے اپنے قبضے میں لے رکھا تھا، تاہم اس واقعے کے بعد افغان صوبے لوگر کے گورنر کی طرف سے کہا گیا تھا کہ ہیلی کاپٹر کا لاپتہ ہو جانے والا عملہ ایک ایسے علاقے میں افغان طالبان کے قبضے میں تھا، جو لوگر کی صوبائی حکومت کے کنٹرول میں نہیں تھا۔
پاکستانی صوبہ پنجاب کی حکومت کا روسی ساخت کا یہ ٹرانسپورٹ ہیلی کاپٹر اس میں سوار پاکستانیوں اور ایک روسی نیویگیٹر کو لیے مرمت اور دیکھ بھال کے لیے پشاور سے ازبکستان جا رہا تھا کہ اسے کریش لینڈنگ کرنا پڑ گئی تھی۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹد پریس کے مطابق اس پاکستانی ہیلی کاپٹر کے عملے کی رہائی اور وطن واپسی اسلام آباد کے اس موقف کے دو روز بعد عمل میں آئی، جس میں جمعرات گیارہ اگست کو کہا گیا تھا کہ کابل حکومت نے پاکستان کو اطلاع دی تھی کہ یہ چھ افراد زندہ اور بخیریت تھے اور افغان حکومت ان کی رہائی کے لیے کوشاں تھی۔