پتلی حالت اور ننگی کمر والا پاکستان کا چوتھا ستون
14 اگست 2021جن معاشروں میں جمہوریت کی جڑیں بہت گہری ہیں، وہاں جمہوری اقدار کی پاس داری میں خامیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی خرابیوں کا علاج مزید جمہوریت سے اور حکمرانوں کو جواب دہ بنا کر کیا جاتا ہے۔ اس لیے کہ کمزور اور خراب جمہوریت کا علاج مزید اور مضبوط جمہوریت ہی سے ممکن ہے۔
پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے طور پر کوئی ایسا مریض نہیں، جس کے گلے میں خرابی کا علاج اسے سنگترے کھلا کر کیا جا سکے۔ یہ ملک ایک ایسی ریاست ضرور ہے، جہاں جمہوریت پر گزشتہ عشروں میں کیے جانے والے بار بار کے شدید حملوں کی وجہ سے یہ نظامِ سیاست بہت ناتواں، غذائی قلت کا شکار اور اتنا کمزور ہے کہ اس کا علاج صرف مزید جمہوریت سے ہی کیا جا سکتا ہے۔
لیکن پاکستان میں جس حد تک ’’محدود اور مجروح‘‘ جمہوریت ہے، اس کا المیہ یہ ہے کہ وہاں ریاست اور ریاست کے جمہوری آئینی اداروں کے تقدس کے تحفظ کا حلف اٹھانے والے یہ سمجھتے ہیں کہ ریاست کے تحفظ کے طریقہ کار کی صرف ان کی طرف سے کی جانے والی تعریف ہی درست ہے اور انہیں ہر صورت وہی کچھ کرنا ہے، جسے وہ ملک کے لیے مناسب اور ناگزیر سمجھتے ہیں۔
اس سوچ کا یہ نتیجہ بھی نیا نہیں کہ پاکستان میں جمہوریت کی خامیوں کو مزید جمہوریت سے دور کرنے کی بجائے، تنقید اور اختلاف رائے کے جواب میں سینسرشپ کا راستہ اپنایا جاتا ہے۔ جمہوریت کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ اختلاف رائے ایک مسلمہ حق ہے، یعنی اختلاف رائے کے حق پر اتفاق رائے۔ لیکن پاکستان میں جس اختلاف رائے کو دبانے کے لیے سیسنرشپ کا راستہ اپنایا جاتا ہے، اس کی بنیاد یہ سوچ ہے کہ جو بولے، اس کا جہاں تک ممکن ہو، منہ بند کر دیا جائے۔ اگر بولنے والا خاموش رہنے سے انکاری ہو تو دباؤ ڈال کر اس کا منہ بند کرا دیا جائے۔
زباں بندی سے انکاری کوئی فرد اگر ایسا انفرادی طور پر سوشل میڈیا کے ذریعے کر رہا ہو تو پھر حل یہ نکالا جاتا ہے کہ اس تک پہنچ کر اسے براہ راست چپ کرانے اور ''خاموشی کے فوائد کا قائل کرنے‘‘ کی کوشش کی جائے۔ اس عمل میں کاغذی کارروائی کی ضرورت پڑے تو اس کے لیے بھی حکمرانوں اور اداروں کے پاس ریگولیٹرز جیسے پلیٹ فارم موجود ہیں۔
لیکن یہ بات سمجھنا کتنا مشکل ہے کہ جمہوری معاشروں میں حکومتوں اور ریاستی اداروں پر تنقید تو کی ہی جاتی ہے۔ جہاں تنقید کو برداشت نہ کیا جائے، وہاں خود پسندانہ طرز حکومت بالآخر آمریت کے لیے جگہ بنانے لگتا ہے۔ سینسرشپ اس لیے غلط سوچ ہے کہ پرامن رہتے ہوئے اپنی بات کہنے والے کو اپنی سوچ کے اظہار کا حق حاصل ہوتا ہے۔ سننے والوں کو اگر کہی گئی بات پسند نہ بھی آئے، تو مسئلے کا حل یہ تو نہیں کہ بولنے والے کے ہونٹ ہی سی دیے جائیں۔
ریاست اور ریاستی اداروں کی طرف سے اعلانیہ یا غیر اعلانیہ سینسرشپ کا علاج یہ ہے کہ ایسی سینسرشپ سرے سے ہی ترک کر دی جائے، نہ کہ اس کا علاج مزید سینسرشپ سے کرنے کی کوشش کی جائے۔ لاہور میں صحافیوں عامر میر اور عمران شفقت کے حوالے سے ''حکام‘‘ نے جو حالیہ کارروائی کی، وہ بظاہر اسی سوچ کا نتیجہ ہے: جو چپ نہ کرے، اسے چپ کرا دو۔ جو بولنا بند نہ کرے، اس کے منہ پر ٹیپ لگا دو۔ ملک کو چپ کی ریاست بنانا مقصود ہے، جہاں نہ کوئی بولے، نہ کوئی سنے، اور نہ کوئی کچھ دیکھے۔ صرف سرکار جو کہے، وہی چپ کر کے سنا جائے۔ ہر قسم کا مکالمہ ختم، جو باقی بچے وہ صرف بااختیار طبقے کی خود کلامی ہو۔
پاکستان میں صحافیوں کا اغوا بھی اُس بڑی پالیسی کا حصہ ہے، جس میں اظہار رائے کی آزادی کو بہر صورت محدود کرنا مقصود ہے۔ پہلے تو 'بولنے والے‘ صحافی کو گولی مار دی جاتی تھی اب لیکن زیادہ تر اغوا کیا جاتا ہے، ڈرایا دھمکایا جاتا ہے تاکہ صحافی خوف زدہ ہو کر 'سیلف سینسر شپ‘ شروع کر دیں۔ اب پاکستانی صحافیوں کے خلاف قانونی مقدمات بھی قائم کیے جا رہے ہیں تاکہ وہ عدالتوں یا سرکاری دفتروں کے چکر ہی کاٹتے رہیں، اپنے حق میں گواہیاں لائیں اور صفائیاں پیش کرتے رہیں اور انہیں اپنا اصل کام کرنے کا موقع ہی نہ ملے۔
سویلین آمریت کا ایک منہ بولتا ثبوت یہ بھی ہے کہ جب حامد میر، مطیع اللہ جان اور طلعت حسین جیسے نامور صحافیوں کو، جن کو دیکھنے، سننے اور چاہنے والے پاکستانیوں کی تعداد لاکھوں میں ہے، نوکریوں سے نکالا جاتا ہے، تو پھر کوئی اور میڈیا ہاؤس انہیں ملازمت دینے پر تیار نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ تب ایسے صحافیوں کو ملازمت دینے کی صورت میں متعلقہ میڈیا ہاؤس کو نہ صرف سرکار کی جانب سے اشتہارات کی بندش کا خوف بلکہ براہ راست یا بالواسطہ کریک ڈاون کا خطرہ بھی لاحق رہتا ہے۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ چند سال پہلے تک پاکستان میں ''نان اسٹیٹ ایکٹرز‘‘ جن میں تحریک طالبان، تحریک لبیک اور دیگر شدت پسند گروہ شامل تھے، صحافیوں کو کسی بھی میڈیا مباحثے سے پہلے باقاعدہ ''ڈکٹیشن‘‘ دیتے تھے۔ لیکن گزشتہ چند برسوں سے کئی نامور صحافیوں کا ''شکار‘‘ کرنے والے ''نان اسٹیٹ ایکٹرز‘‘ نہیں بلکہ ''اسٹیٹ ایکٹرز‘‘ ہی تھے۔ پچھلے تین سالوں میں صحافیوں کے خلاف سو سے زائد مقدمات سرکاری افسران نے دائر کروائے۔ ان میں سرفہرست دہشت گردی، اسلحہ رکھنے، عوام کو فوج کے خلاف اکسانے اور ملکی اداروں کو مبینہ طور پر بدنام کرنے جیسے الزامات والے مقدمات شامل ہیں۔
پاکستان میں اس وقت مجموعی صورت حال یہ ہے کہ میڈیا حکومت پر تنقید کرے تو حکومتی اہلکار حرکت میں، فوج اور بیوروکریسی پر تنقید ہو تو شامت صحافیوں کی، عدلیہ پر تنقید کی جائے تو عدالتوں کی جانب سے مقدمات کا سلسلہ بھی صحافیوں ہی کے خلاف۔ میڈیا کو ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے لیکن پاکستان میں اس ستون کی حالت پتلی اور کمر ننگی ہے۔