’پدماوت‘ کے بعد ’لکشمی بائی‘ بھی انتہا پسندوں کے نشانے پر
6 فروری 2018فلم ’منیکارنیکا دی کوئن آف جھانسی‘ ابھی اپنی تکمیل کے آخری مرحلے ہے۔ یہ فلم تحریک آزادی میں انگریزوں کے خلاف لڑنے والی انیسویں صدی کی رانی لکشمی بائی کی زندگی پر مبنی ہے جس کی شوٹنگ راجستھان میں چل رہی ہے۔
’گل مکئی‘ ملالہ کی زندگی پر مبنی بھارتی فلم
اسرائیل بالی وڈ سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟
رانی لکشمی بائی ’جھانسی کی رانی‘ کے نام سے بھی معروف ہیں جنہوں نے اپنی ریاست کو بچانے کے لیے انگریزوں کے خلاف تلوار اٹھائی تھی۔ وہ ایک مراٹھی براہمن لیڈر تھیں اور بھارت میں ان سے وابستہ شجاعت کے قصے خاصے مقبول ہیں۔
فلم میں رانی کا کردار معروف اداکارہ کنگنا رناؤت ادا کر رہی ہیں جو حال ہی میں فلم کی شوٹنگ کے دوران ایک سٹنٹ سین کرتے ہوئے زخمی بھی ہوگئیں تھیں۔ اطلاعات کے مطابق فلم ’باہو بلی‘ کے اسکرپٹ رائٹر نے ہی اس فلم کی بھی کہانی لکھی ہے، تاہم کہا جا رہا ہے کہ یہ فلم اس سے بھی بڑے بجٹ کی فلم ہے۔
دوسری جانب ایک ہندو تنظیم ’سروا براہمن مہا سبھا‘ کا کہنا ہے کہ اس فلم میں تاریخ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے اس لیے وہ اس کے خلاف ہیں۔ اس تنظیم کے صدر سریش مشرا کا کہنا ہے کہ فلم میں رانی لکشمی بائی اور ایک برطانوی شخص کے درمیان پیار و محبت پر مبنی رومانوی مناظر پیش کیے گئے ہیں جس کی وہ قطعی اجازت نہیں دیں گے۔
صحافیوں نے ان سے جب یہ سوال کیا کہ آخر انہیں اس بات کا علم کیسے ہوا کہ فلم میں ایسے سین ہیں تو ان کا کہنا تھا، ’’اس فلم کے بہت سے سین راجستھان میں ہی شوٹ کیے گئے ہیں اور ہمیں اس کے بارے میں راجسھتان کے مختلف علاقوں میں میں رہنے والے اپنے دوستوں سے معلوم ہوا ہے۔ یہ فلم ایک بیرونی مصنف کی کتاب پر مبنی ہے جس نے رانی کی شبیہہ کو خراب کرنے کی کوشش کی تھی۔‘‘
مسٹر مشرا کا کہنا تھا کہ وہ تجارتی مقاصد کے لیے تاریخ ساز شخصیات کی شبیہہ کو مسخ کرنے کے خلاف ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’اگر فلم کے تعلق سے ان کی تشویشات پر توجہ نہ دی گئی تو پھر وہ اس فلم کی شوٹنگ راجستھان میں نہیں ہونے دیں گے اور شوٹنگ کی کسی بھی حال میں روکنے کی کوشش کی جائےگی۔‘‘
انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں فلم کے پروڈیوسر کمل جین کو ایک خط لکھ کر ان سے فلم کی سکرپٹ اور مناظر سے متعلق دریافت کیا گیا تھا تاہم انہوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی نیت درست نہیں ہے۔
لیکن فلم کے پروڈیوسر کمل جین نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ فلم میں رانی لکشمی بائی کو ایک با عزت و با وقار ملکہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’ہم نے اس سلسلے میں جھانسی کے مورخین اور دانشوروں سے پہلے ہی صلا ح و مشورہ کیا تھا۔ وہ مجاہد آزادی اور ہمارے ملک کی ایک قابل احترام رہنما تھیں۔ وہ ملک کے لیے شجاعت و ہمت کی ایک علامت ہیں اور فلم کی اسٹوری اسی انداز پر مبنی ہے۔ فلم میں ان سے متعلق قابل اعتراض سین کوئی بھی نہیں ہے۔‘‘
انہوں نے فلم میں تاریخ کو مسخ کرنے کے الزامات کو بے بنیاد بتاتے ہوئے کہا کہ انہیں اس طرح کے بیانات سے کافی تکلیف پہنچی ہے۔ ’’کیا آزادی کا مطلب یہی ہوتا ہے؟ ہم تو ایک فلم بنا رہے ہیں جس میں رانی لکشمی بائی کی اسٹوری کو حقیقی انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہم کچھ بھی مخفی نہیں رکھنا چاہتے اور اگر کسی کو ضرورت ہو تو وہ فلم کی سکرپٹ بھی دیکھ سکتا ہے۔‘‘
دوسری جانب ’سروا براہمن مہا سبھا‘ کے صدر کا دعویٰ ہے کہ یہ فلم ایک برطانوی مصنف کی متنازع کتاب ’رانی‘ پر مبنی ہے اسی لیے انہیں اس پر اعتراض ہے۔ رانی نامی کتاب بھارتی نژاد برطانوی مصنف جے شری نے لکھی تھی۔ جے شری کی اس کتاب میں رانی لکشمی بائی اور اس دور کے انگریزوں کے درمیان تعلقات اور رومانس کا ذکر ہے۔ ریاست اتر پردیش کی حکومت نے سنہ دو ہزار آٹھ میں اس کتاب پر پابندی عائد کر دی تھی۔
بھارت میں گزشتہ چند برسوں میں عدم رواداری میں زبردست اضافہ دیکھا گيا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایک عجیب سی روایت چل پڑی ہے کہ ہر معاملے میں ادیبوں، فنکاروں، دانشوروں اور فلم انڈسٹری کو نشانہ بنایا جانے لگا ہے۔ اس سے قبل فلم پدماوت میں راجپوتوں کی کہانی تھی اس لیے راجپوت برادری اس کے خلاف سڑکوں پر تھی۔ جھانسی کی رانی لکشمی بائی برہمن تھیں، اس لیے اب برہمن تنظمیں فلم کی مخالفت میں سامنے آنے لگی ہیں۔
سیاسی مبصرین اور دانشوروں کا کہنا ہے کہ بھارت میں اب صرف فلم انڈسٹری ہی ایک ایسی جگہ بچی ہے جہاں اب بھی پیار و محبت، امن و شانتی کی باتیں ہوتی ہیں، جہاں سکیولر اقدار زندہ ہیں اور سبھی برادریاں ایک ساتھ رہتی ہیں۔ لیکن کچھ تنظمیں کافی دنوں سے اس پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہی ہیں تاکہ فلمی صنعت بھی ایک خاص مکتب فکر کی عکاسی کرنے لگے۔ ایسی سخت گیر تنظیموں کو سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی حاصل ہے جو اپنے آقاؤں کے احکامات کے مطابق مہم چلاتے ہیں تاکہ مستقبل میں وہ اس سے سیاسی فائدہ حاصل کر سکیں۔